ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
یہ صورت پہلی صورت کے مقابلہ میں کسی حد تک دُرست تو ہے لیکن اِس میں دو طرح کی خرابیاں ہیں : (i) ایک تو یہ کہ آپ کے دِل کا نفسانی دبائو سے بچتے ہوئے کسی ایک طرف مائل ہونا جواب دینے کے لیے ضروری ہے ۔ اَور ایسا ہر دفعہ اَورہرسوال کے جواب میں ہونا ضروری نہیں ہے ورنہ تین دفعہ اَورسات دفعہ اِستخارہ کی بات کیوں آتی جبکہ کوئی بھی معاملہ اِستخارہ کے بعد ایک ہی لمحہ میں حل ہو جاتا ؟ (ii) دُوسری بات یہ ہے کہ یہ حضور ۖ کی تعلیمات اَورآپ ۖ سے منقول اِستخارہ کے طریقہ کے مطابق نہیں ہے۔ اِس رواج کے عام ہونے کی وجہ سے ایک خرابی یہ بھی پیدا ہو گئی ہے کہ لوگ بذاتِ خود اِستخارہ کرنے کے بجائے دُوسروں سے اِستخارہ کروانے کو ہی شرعی طریقہ سمجھنے لگے ہیںجبکہ حضور ۖ کی تعلیمات اَورصحابہ کا معمول خود ضرورت مند شخص کے اِستخارہ کا تھا۔ بہرحال مناسب اَورمسنون عمل یہ ہے کہ اِنسان خود اِستخارہ کرے، اگر کوئی معاملہ بہت اہم ہو اَور کسی پہلو پر میلان بھی نہ ہو رہا ہو یا نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو پھر ایسے لوگوں سے جو اِس معاملہ سے کسی نہ کسی حد تک متعلق ہوں اَوراُن کی بزرگی وشرافت بھی مسلَّم ہو ،اِستخارہ کروایا جا سکتا ہے اَوراِن حضرات کو بھی چاہیے کہ اِستخارہ اُس طریقہ پر کریں جس کی آپ ۖ نے اُمت کو تعلیم دی ہے۔ بقیہ : اَنفاس ِ قدسیہ فائدہ : حضرت نے کبھی ہاتھ میں گھڑی نہیں باندھی بلکہ آپ جیبی گھڑی رکھتے تھے۔ یہ چیز حضرت کے کمالِ دین پر دلالت کرتی ہے لیکن موجود ہ زمانے میں گھڑی ایک ضرورت کی چیز ہے تاہم ضرورت داہنے ہاتھ میں باندھنے سے پوری ہوجاتی ہے لیکن اَفسوس یہ ہے کہ دیندار لوگ بھی رسم اَور معاشرت کے ساتھ ہیں اَور اِس کا خیال نہیں کرتے ہیں۔ (جاری ہے)