ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
کرتا ۔ اِس طرح کے کچھ اَورطریقے بھی خیروشر کے معلوم کرنے کے لیے اُن کے دَرمیان رائج تھے ۔ نبی کریم ۖ نے اِس جاہلانہ رسم سے منع فرمایا کیونکہ اِس کی نہ تو کوئی اَصل تھی اَور نہ کوئی بنیاد بلکہ اِس میں کچھ بھلائی نکل بھی جاتی تو وہ بھی اِتفاق ہوتی تھی اَورچونکہ اِس کے بعد یہ لوگ اِس کو خدائی حکم اَورفیصلہ سمجھ کر عمل کرتے یا ترک کرتے تھے جس میںایک گونہ اللہ رب العزت پربہتان بھی تھا تو شریعت نے اِنسان کی فطری ضرورت اَورطبعی میلان وخلجان کو ملحوظ رکھتے ہوئے رب ِکائنات سے رہنمائی اَوراِ ستفادہ کا ذریعہ اِستخارہ کی شکل میںاُسے عطا کیا۔'' وکان اھل الجاھلیة اذا عنت لھم حاجة من سفر او نکاح او بیع استقسموا بالأزلام ، فنھی عنہ النبیۖ لأنہ غیر معتمد علی اصل، وانما ھو محض اتفاق ، ولأنہ افتراء علی اللّٰہ بقولھم : أمرنی ربی ونھانی ربی ، فوضھم من ذالک الاستخارة ۔ (حُجة اللّٰہِ البالغة ٢/١٩) اِستخارہ کی حکمت : اِستخارہ کی حقیقت اَوراُس کی رُوح یہ ہے کہ جب بندہ کسی اَمر میں متحیر اَور متردّد ہوتا ہے اَور کوئی صاف اَور واضح پہلو شرعی اَورعقلی ، معاشی اَوردینی طورپر نظر نہیں آتا اَوراُس کا علم رہنمائی سے قاصر اَور عقل بہتر اَورصحیح کے اِنتخاب سے عاجز ہو جاتی ہے تو یہ بندہ اپنی دَرماندگی اَور بے علمی کا اِحساس و اِعتراف کرتے ہوئے اپنے علیمِ کل اَور قادرِمطلق مالک سے رہنمائی اَورنصرت کا خواستگار ہوتا ہے اَور اپنے معاملہ کورحیم وکریم ذات کے حوالہ کردیتا ہے کہ جو آپ کے نزدیک بہتر ہو بس اُسی کا فیصلہ اَوراِنتخاب مجھ بندہ کے لیے کر دیجیے۔ اِستخارہ کی فضیلت : اِستخارہ کی فضیلت واہمیت اَوربندوں کو اِس کی حاجت وضرورت کے پیش نظر حضور اَکرم ۖ اِستخارہ کی تعلیم اِسی اہتمام سے فرماتے تھے جس اہتمام سے کہ آپ ۖ اُن کو قرآنِ کریم کی