ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
تو معلوم ہوا کہ یہ سب چیزیں حساب سے چل رہی ہیں اِن کو چلانے والا کون ہے اِس کو وہ نہیں مانتے۔ اَرے بھئی اِدھر تو تم کہتے ہو کہ ایک پیالی چائے بن کر نہیں آسکتی بغیر سبب کے، بغیر تمہارے کچھ کیے اَور اُدھر کہتے ہو کہ سب کچھ خود بخود ہورہا ہے ، تضاد ہو گیا نا ٹکراؤ ہو گیا نا ! وہاں بھی کہو کہ سبب ہے اَور وہ سبب کیا ہے ؟ اُس کو وہ ''فطرت'' کہہ لیں کچھ کہہ لیں۔ ہم اُس کو کہتے ہیں ''اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک '' اَور '' بہت بڑی ذات ہے لامحدود''۔ اَور وہ کہتے ہیں کہ ''بہت بڑی مخلوق ہے لامحدود'' کیونکہ اُن کی جہاں تک نظر پہنچی ہے وہ بہت دَراز فاصلہ ہے وہاں تک روشنی بھی نہیں پہنچ سکتی روشنی کو بھی لاکھوں سال چاہئیں حالانکہ بہت بڑی رفتار ہے روشنی کی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اِسی لیے ہر اِنسان کے ذمہ کردیا کہ وہ خدا کو تو مانے جب وہ دیکھتا ہے کہ میں کھارہا ہوں پی رہا ہوں میں یہ کر رہا ہوں وہ کر رہا ہوں اَور فلاں چیزیں پیدا ہو رہی ہیں اَور خود بخود ہو رہی ہیں تو اُس کا ذہن جانا چاہیے کہ کوئی خالق ہے اَور ٹکراؤ نہیں ہے آگ اَور پانی کا کہ یہ تو پیدا کررہا ہے سبزہ اَور دُوسرا اُسے آگ لگا رہا ہے کیونکہ دو خدا تو نہیں ہیں لہٰذا سبزہ پیدا فر ما رہا ہے سبزہ ہو رہا ہے اَور جب خشک سالی ہو رہی ہے تو خشک سالی ہی چل رہی ہے تووہ جو نظام چاہتا ہے وہ چلتا ہے اَور وہ سب دیکھتے ہیں، کوئی ٹکراؤ نہیں ہے کہ ایک پودا آپ نے لگایا وہ اچھا خاصا ہو گیا دُوسرا کوئی آیا اُس نے جلا دیا تو خیال ہو کہ ہاں بھئی کوئی دو (خدا) ہیں تصرف کرنے والے، یہ بات نہیں ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ایک ہے فرماتے ہیں کہ ( لَوْ کَانَ فِیْھِمَا اٰلِہَة اِلَّا اللّٰہُ ) اَگر زمین اَور آسمان میں معبود ہوتے سوائے خدا کے کوئی اَور ہوتے ( لَفَسَدَ تَا ) تو اِن میں فساد آگیا ہوتا یہ گڑبڑ ہوگئے ہوتے ٹکراؤ ہوجاتا ٹکراؤ خود بخود ہوتا ہے تو یہ بات ہے ہی نہیں، معلوم ہوا خدا ایک ہے اُس کی ذات ایک ہے۔ کمیونسٹوں کے دلائل خود اُن کے خلاف پڑتے ہیں : اَور یہ کمیو نسٹوں کے دلائل خود اِن کی دلیل سے ٹوٹ جاتے ہیں کہ جب یہ کہتے ہیں کہ سب