ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
زیادہ ختم کرنے والے کو دیکھا گیااَور بعض حضرات نے تین دِن میں قرآن حفظ کیا جیسے'' محمد بن کلبی'' نے جس کا اِبن خلکان نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے۔ طرزِ تلفظ اَور نہجِ قراء ت کی حفاظت : نزولِ قرآن کے زمانے میں جس طرح طرز و لہجہ سے قرآن کا تلفظ ہوتا تھا اُس کو قرائِ قرآن کے ذریعہ محفوظ کیا گیا اَور وہی سلسلہ قراء ت آج تک محفوظ ہے۔جن صحابہ کرام نے حضور ۖ سے قراء ت حاصل کی اَور مابعد زمانے کے قراء کے بالذّات یا بالواسطہ شیوخ و اَساتذہ تسلیم کیے گئے اَور اُن کا سلسلۂ قراء ت آج تک موجود ہے، وہ سات حضرات ہیں : عثمان، علی، اُبی بن کعب، زید بن ثابت، عبد اللہ بن مسعود، اَبوالدردائ، اَبو موسٰی الاشعری رضی اللہ عنہم۔ (مناہل القرآن ج١ ص ٤٠٧) معنوی حفاظت یعنی مطالب ِقرآن کی محفوظیت : الفاظِ قرآن مطالب و معانی سمجھانے کا ذریعہ ہیں، اگر مطالب و معانی قرآن محفوظ نہ ہوں بلکہ مغرب زدہ طبقہ کے خیال کے مطابق ہر زمانہ میں نئے مطلب تراشنے کی گنجائش ہو تو الفاظِ قرآن کی حفاظت بیکار ہے جبکہ معنی محفوظ نہیں رہے تو الفاظ کا حفظ بے مقصد ہے۔ اِس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کے معانی کی حفاظت صاحب ِقرآن کی قولی و فعلی و تقریری ذرائع سے فرمائی اَور صاحب ِقرآن علیہ السلام نے (وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ) (کہ آپ اِن کو مطلب قرآن سکھادیں) ( وَلِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ ) (تاکہ آپ بیان کریں اُمت کو قرآن کے مطالب جو اُن کی طرف نازل ہوا ہے) کے اِرشادِ اِلٰہی کے تحت مطالب ِقرآن کی تعلیم دی۔ اَب مطالب بھی محفوظ ہو گئے اَور کسی کو مجالِ ترمیم و تحریف نہیں رہی کہ قرآن کے مطالب کو بدل سکے یا اُن میں ترمیم کر سکے۔ عملی حفاظت ِقرآن : قرآن کے جن الفاظ مثلاً صلوٰة، زکوٰة، صوم، حج، جہاد وغیرہ کے مفہوماتِ شرعیہ حضور علیہ السلام نے بتلائے ہیں، وہ پھر عملاً بھی کر کے دکھلائے ہیں تاکہ قرآنی حقائق عملی صورت میں موجود ہوکر اُمت