ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
اللہ کے منکر مادّہ پرستوں کے دلائل میں ٹکراؤ ہے : میں یہ ذکر کر رہا تھا کہ جو ''خدا'' کو نہیں مانتے ''مادّے'' کو مانتے ہیں اُن میں تضادبھی پایا جاتا ہے آپ اَگر غور کریں وہ کہتے ہیں کہ کوئی چیز بلا سبب نہیں ہوتی بلکہ وہ خدا کی نفی پر جو سبق پڑھاتے ہیں سکولوں میں وہ اِس طرح کہ بھوکار رکھتے ہیں کہتے ہیں اللہ سے کہو کہ وہ دے دے ،مطلب یہ ہے کہ خدا تو نہیں دیتا تم کرو گے تو ملے گا، اِس طرح سے لاتے ہیں ذہن کو، تو چائے آجائے یہ کبھی نہیں ہوگا بناؤگے پکاؤگے پھر آئے گی اِسی طرح اِرادہ کرو اَور خود بخود ہنڈیا پک جائے یہ بھی نہیں ہوتا بہت کچھ کرنا پڑتا ہے پھر تیار ہوتی ہے تو خود بخود کچھ بھی نہیں ہوتا وہ یہ کہتے ہیں۔ اَور جتنی بھی چیزیں ایسی (مادّی اَور محسوسات کی سی) ہیں (اُن میں) نظر آتا ہے کہ واقعی خود بخود کچھ بھی نہیں ہوتا۔ تو ایک طرف تو اُن کا یہ پورا زور ہے کہ خود بخود کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ اِنسان کرتا ہے تو ہوتا ہے اَور دُوسری طرف (اُن سے پوچھیں) کہ بھائی یہ عالم کیسے چل رہا ہے ! ساری دُنیا یہ کیسے چل رہی ہے ؟ بارش ہونا، پودوں کا پیدا ہونا اَور یہ اَور وہ تمام چیزیں، آپ نے تو کھانا کھایا اَور سو گئے اَور صبح کو اُٹھے تو بھوک لگی ہوئی تھی تو یہ جو ہضم ہو گیا تھا یہ سب کیسے ہو گیا ! تو یہ تمام جو چیزیں نظروں سے غائب ہیں اَور عمل میں آرہی ہیں وہ کھانا جو کھایا تھا وہ گیا کہاں ؟ وہ تو رہنا چاہیے جب کھالیا ایک دفعہ تو پھر رہنا چاہیے فناکیسے ہو گیا وہ ؟ تو فنا کا عمل ویسے جاری ہے ہر وقت اِسی لیے دو بارہ کھانا پڑتا ہے، فنا کا عمل جاری ہے تو پانی پینا پڑتا ہے جو زائد ہوتا ہے وہ خارج ہوجاتا ہے ورنہ جزوِ بدن بن جاتا ہے اَور جزوِ بدن بن کر پھر رہنا چاہیے اُسے یہ بھی نہیں ! وہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فنا ہو رہا ہے۔ تو یہ جو چیزیں ہیں اِس طرف اُن کے ذہن نہیں جاتے ،اُن سے پوچھو یہ عالَم کیسے چل رہا ہے یہ سورج چاندکا نظام بہت باقاعدہ بہت حساب سے اِتنے حساب سے ہے کہ ہماری بھی سمجھ میں وہ آنے لگا ہے یعنی اِنسانوں کی، چنانچہ پیشنگوئی کردیتے ہیں کہ چاند گرہن ہوگا فلاں وقت سے فلاں وقت تک، سورج گرہن ہوگا فلاں فلاں ملک میں نظر نہیں آئے گا اَور اِس وقت سے اِس وقت تک ہوگا۔