ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
اَوقات کے علاوہ جن میں نماز پڑھنا مکروہ ہے کسی بھی وقت اَدا کی جا سکتی ہے ۔ (مرقاة المفاتیح ٣/٢٠٦، عمدة القاری ٢٢٤٤) اَلبتہ علامہ اِبن عابدین شامی نے شرح الشریعہ کے حوالے سے مشائخ سے سنی ہوئی یہ بات نقل کی ہے کہ اِس کے پڑھنے کے بعد باوضو سوجائے، اِس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نمازِ اِستخارہ سونے سے قبل اَدا کرنا مجرب اَور نافع ہے۔ وفی شرح الشریعہ المسموع من المشائخ ان ینام علی طھارة مستقبل القبلة بعد قراء ة الدعاء المذکور ۔ (شامی ١/٣٤١، معارف السنن ٣/٢٧٨) اِستخارہ میں تکرار : اگر کسی کو ایک دفعہ اِستخارہ کرنے سے کسی ایک پہلوپر دِلی رُجحان حاصل نہ ہو تو ایسا شخص رُجحان حاصل ہونے تک اِستخارہ کرتا رہے، چنانچہ علامہ عینی نے اِمام نووی کی کتابُ الاذکار سے اُن کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اِنسان تین دفعہ اِستخارہ کرے کیونکہ حضور ۖ سے تین دفعہ دُعائیں کرنا ثابت ہے۔ (عمدة القاری ٣/٢٢٥) بعض حضرات ِعلماء نے حضرت اَنس سے مروی روایت کی بناء پر سات دفعہ اِستخارہ کرنے کو پسند کیا ہے وینبغی ان یکررھا سبعًا لما روی ابن السنی عن انس ۔(بذل المجہود ٢/٣٤٤) لہٰذا اگر کسی کو دِلی میلان حاصل نہ ہوتو وہ تین دفعہ اِستخارہ کرے، اگر پھر بھی دلی میلان حاصل نہ ہو تو سات دفعہ کرلے اَور سات دفعہ کرنا بہتر ہے کیونکہ سات میںتین داخل ہے لیکن اگر کوئی تین ہی دفعہ کرے تو اُس کو سات تو نہیں مل سکتا ، لہٰذا ایسے اَنداز پر عمل کرنا جس میں دونوں صورتیں مل جائیں اَور دونوں طرح کی آراء پر عمل ہو جائے زیادہ مناسب ہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ اگر اُس کام میں تاخیر کی گنجائش ہوتو جب تک دِل کا جھکائو کسی ایک پہلو پر نہ ہوجائے ، اِستخارہ کرتا رہے۔ (عمدة القاری ٤/٢٢٥) نتیجہ ٔ اِستخارہ کا شرعی حکم : اِستخارہ کرنے کے بعد جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے اُس پر عمل کرنا نہ تو واجب ہے اَور نہ ہی سنت ، لیکن اگر کسی ایک جانب پورا رُجحان ہو جائے اَور اُس میں اپنی ذاتی خواہش کا کوئی دخل نہ ہو تو اِس