ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
کی عملی زندگی کا جزبن جائیں اَور کسی ملحد کو اِن الفاظ کے شرعی مفہومات کی تحریف کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ توضیحی مثال : اَحکامِ دین کے مجموعہ کو ایک عمارت سمجھو، ہر عمارت کے لیے تین قسم کا وجود لازمی ہے : ( ١) عملی وجود (٢) تحریری وجود (٣) خارجی وجود اِسی طرح اِسلام اَور دین کا جو نقشہ علم ِاِلٰہی میں تھا وہ اِسلام کا عملی وجود ہے پھر اُسی نقشہ کو جب کتاب و سنت کی شکل میں مرتب کیا گیا، یہ اِسلام کا تحریری وجود ہے پھر دَورِ اَوّل کے مسلمانوں نے جب اِس کے مطابق عمل کیا، یہ اُس کا وجودِ خارجی ہے، اِن سے تابعین نے دیکھ کر سیکھا، تابعین سے تبع تابعین نے، علیٰ ھذا القیاس اِسلام کا یہ عملی و خارجی وجود کم و بیش تاریخی تسلسل کے ساتھ عہد ِنبوت سے آج تک موجود ہے اَور قیامت تک رہے گا جیسے ایک اِنجینئر بلڈنگ کا نقشہ پہلے ذہن میں مقرر کرتا ہے پھر اُس کو کاغذ پر بناتا ہے پھر ملبہ منگواکر مستری اَور مزدوروں کے ذریعہ خارجی نقشہ تیار کیا جاتا ہے، اِن تینوں نقشوں میں مطابقت اَور موافقت ضروری ہے ورنہ غلطی ہوگی۔ اِسی طرح اِسلام کی ایسی جدید تعبیر یا نقشہ جو اِسلام کے تحریری نقشہ اَور خارجی نقشہ یعنی اِسلام کے تاریخی مسلسل وجود خارجی کے خلاف ہو وہ غلط اَور اِیجاد دہندہ ہوگا،اِس سے اِسلام کے اَندر ہر تحریف و ترمیم کا دَروازہ بند ہوجاتا ہے کیونکہ اِسلام کے قوانین اَبدی ہیں جیسے وہ اِس سے قبل ہزار بارہ سو سال تک مختلف اَقوام اِسلامیہ اَور مختلف ملکوں اَور زبانوں کے باشندوں کی راہنمائی کے لیے کافی تھے، آج بھی کافی ہیں اَور آئندہ بھی کافی رہیں گے بلکہ زمانۂ حاضرہ اِسلامی قوانین کا اِس سے زیادہ محتاج ہے جس قدر پہلا دَور محتاج تھا۔ یہی قرآن کا وہ کمال و عظمت ہے جو قبل اَزیںکسی کتاب کو نصیب نہیں ہوا۔ اِنسان اَور اُس کا قانون جذباتی ہے لیکن قرآن اَور قانونِ اِلٰہی فطری اَور اِعتدالی ہے۔