ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
میسر نہیں آسکتا ، رہے وہ صحابہ و اَشخاص جوصاحب ِ کرامت ہیں اُنہیںکم سے کم مدت میں بھی بہت کچھ تدبر حاصل ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن کے اَوقات میں برکت عطا فردیتے ہیں اِس لیے یہ حضرات تھوڑی سی مدت میں وہ کام کر لیتے ہیں جو دُوسرے لوگ زیادہ سے زیادہ مدت میں بھی نہیں کر پاتے، ایسی صورت میں اِس حدیث ِ پاک کو تین دِن سے کم مدت میں قرآنِ پاک ختم کرنے کے منع ہونے یا مکروہ ہونے کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حدیث ِ پاک میں فہم کی نفی کی گئی ہے ثواب کی نہیں اِس سے بھی صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تین دِن سے کم مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنا جائز ہے کیونکہ اَگر ناجائز اَور منع ہوتا توثواب کی نفی کردی جاتی۔ یہاں سے اُن لوگوں کا غلطی پر ہونا بھی واضح ہوجاتا ہے جو اُن اَسلاف ِ اُمت پر زبانِ طعن دَراز اَور اِعتراض کرتے ہیں جن کا معمول تین دِن سے کم مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنے کا تھا، اللہ تعالیٰ عقل و شعور عطا فرمائے، اِس سلسلہ میں ناچیز کے ایک رسالے ''نعمان اَور قرآن'' کامطالعہ اِنشاء اللہ مفید رہے گا۔ حضور علیہ السلام کو اُمت کے بارے میں تین چیزوں کا اَندیشہ : عَنْ اَبِیْ مَالِکِ الْاَشْعَرِیِّ اَنَّہ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ یَقُوْلُ : لَااَخَافُ عَلٰی اُمَّتِیْ اِلَّا ثَلَاثَ خِلَالٍ، اَنْ یَّکْثُرَ لَھُمْ مِّنَ الْمَالِ فَتَحَاسَدُوْنَ فَیَقْتَتِلُوْا، وَاَنْ یُّفْتَحَ لَھُمُ الْکُتُبُ یَأْخُذُ الْمُؤْمِنُ یَبْتَغِیْ تَأْوِیْلَہ ، وَلَیْسَ یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہ اِلَّا اللّٰہُ وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہ کُلّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَایَتَذَکَّرُ اِلَّا اُلُوالْاَلْبَابِ ، وَاَنْ یَّرَوْا ذَا عِلْمِھِمْ فَیُضَیِّعُوْہُ وَلاَ یُبَالُوْنَ عَلَیْہِ ۔ ( معجم طبرانی کبیر ج٣ ص٢٩٣ ، مجمع الزوائد ج ١ ص ١٢٨ ) ''حضرت اَبو مالک اَشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے رسولِ اَکرم ۖ کو سنا آپ فرما رہے تھے کہ مجھے اُمت میں تین باتوں کا خوف آتا ہے :