ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
|
ف : ملاعلی قاری رحمة اللہ علیہ علامہ طیبی رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ تین دِن سے کم میں قرآنِ کریم ختم کرنے کی صورت میں تو قرآنِ کریم کے ظاہری معنی بھی سمجھ میں نہیں آسکتے چہ جائیکہ قرآنِ کریم کے حقائق و دقائق کا فہم، اِن کاحال تو یہ ہے کہ قرآن کی ایک چھوٹی سی آیت بلکہ ایک جملہ کے اَسرار و رموز سمجھنے کے لیے بھی بڑی عمریں ناکافی ہیں، نیز حدیث ِ پاک میں جو نفی ہے اِس سے مراد فہم کی نفی ہے ثواب کی نفی نہیں یعنی اِس کو ثواب تو بہرحال ملے گا، قرآن کو سمجھ کر پڑھے یا بغیر سمجھے۔ (مرقاة ج ٥ ص ٨١) علامہ طیبی یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ فہم اَشخاص و اَفہمام میں تفاوت کے لحاظ سے مختلف ہوتی رہتی ہے بعض لوگوں کی سمجھ بہت تیز اَور پختہ ہوتی ہے وہ کم عرصہ میں بھی قرآنی حقائق و دقائق سمجھ لیتے ہیں جبکہ بعض لوگوں کی سمجھ بہت ہی کم ہوتی ہے جن کے لیے طویل عرصہ بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ حدیث ِ مذکور کے پیش ِ نظر اَسلاف میں قرآنِ کریم کے ختم کرنے کی مدت میں اِختلاف ِ رائے ہوا ، ایک جماعت نے تو یہ فرمایا کہ چونکہ حدیث میں آگیا ہے کہ تین دِن سے کم مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنے کی صورت میں قرآن فہمی حاصل نہیں ہوتی لہٰذا قرآنِ کریم کو کم اَز کم تین دِن میں ختم کیا جائے اِس سے کم میں ختم کرنا صحیح نہیں۔ اِس جماعت کے بر عکس اَسلاف کی دُوسری جماعت کا کہنا ہے کہ اِس حدیث کا تعلق اَکثر اَفراد کے اِعتبار سے ہے کہ اکثر اَفراد کا حال ایسا ہی ہے کہ اُنہیں کم مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنے کی صورت میں قرآن فہمی اَور تدبر حاصل نہیں ہوتا، تمام اَفراد کے اِعتبار سے یہ حدیث نہیں ہے کیونکہ بہت سے صحابہ و تابعین اَور اَسلاف ِ اُمت سے تین دِن سے کم مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنا ثابت ہے ۔اُن کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بزرگ بغیر غور و فکر اَور تدبر کے قرآن پڑھتے تھے اَور اُن کو قرآن کا فہم حاصل نہیں ہوتا تھا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اِس حدیث ِ پاک کا تعلق اُن حضرات سے ہے جو صاحب ِ کرامت نہیں ہیں اُن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اُنہیں تین دِن سے کم مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنے میں تدبر