ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2013 |
اكستان |
قرآنِ پاک میں اِرشاد ہے : ( اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ o اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلاَّ اَنْ یَّقُوْلُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ) ( سُورة الحج آیت ٣٩ و ٤٠ ) '' حکم ہوا اُن لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں اِس واسطے کہ اُن پر ظلم ہوا اَور اللہ اُن کی مدد کرنے پر قادر ہے۔وہ لوگ جن کو نکالا اُن کے گھروں سے اَور دعوی کچھ نہیں سوائے اِس کے کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔ '' قرآنِ پاک میں مقصد جہاد اَور جہاد کی غایت بھی بتلائی گئی ۔ ( وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَة وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ للّٰہِ)( البقرہ آیت ١٩٣) ''اَور لوگوں سے لڑائی جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اَور دین صرف اللہ ہی کے لیے ہوجائے۔ '' اِس آیت ِمبارکہ کی طرح جابجا اَحادیث میں بھی یہ تعلیم موجود ہے۔ ٭ ایک اعرابی نے جنابِ رسول اللہ ۖ سے دریافت کیا، کوئی اِس لیے جہاد میں حصہ لیتا ہے کہ اُسے مالِ غنیمت ملے گا، کوئی اِس لیے کہ اُس کی شجاعت کا(جابجا) ذکر کیا جائے گا (شہرت ہو گی) کوئی اِس لیے کہ فدا کاری اَور نیکی میں اُس کا مقامِ بلند (سب کو نظر آجائے) تو اِن میں کون سا شخص خدا کے نزدیک اُس کی راہ میں لڑنے والا شمار ہوگا ؟ آپ نے جواب میں اِرشاد فرمایا : مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا فَھُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ١ جو شخص اِس لیے جہاد کرتا ہے کہ صرف حق تعالیٰ کا کلمہ توحید بلند ہو، وہ ہی خدا کی راہ میں ہے۔ ٭ غزوہ خیبر کے موقع پر جب جناب ِ رسول اللہ ۖ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ١ بخاری شریف کتاب العلم رقم الحدیث١٢٣ ( بَاب مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا )