ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
لیاقت پیدا ہوجائے کہ اُس فن سے متعلق بے پڑھی کتابوں کا مطالعہ کرکے آپ اُس کو حل کرسکیںورنہ یہ سمجھنا کہ دو سال آپ نے حدیث کی کتابیں پڑھیں ، مشکوة اَور مشکوة کے بعد جو ہمارے نصابِ تعلیم میں کتابیں ہیں ، اُن کو پڑھ کر آپ نے سارا علمِ حدیث حاصل کرلیا،نادانی کی بات ہے۔ایسا نہیں ہے۔ ترجمہ قرآنِ شریف کا پڑھ کر کے ، ایک جلالین پڑھ کر کے کوئی شخص یہ سمجھنے لگے کہ میں نے سارے قرآن کے علم کو حاصل کرلیا ، کیا کہاجائے گاسوائے اِس کے کہ بُزِاَخفش ہے ، ایسا نہیں ہے ، صرف اِتنا ہے کہ کامیاب سے کامیاب تر نصابِ تعلیم اُسے کہا جائے کہ دو تین شرائط کے ساتھ اُس نصابِ تعلیم کو پڑھنے کے بعد ہمارے طالب علم میں یہ لیاقت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اِن فنون کی بے پڑھی کتابوں کو قوتِ مطالعہ سے حل کرسکتا ہے،وہ شرائط یہ ہیں : (١) طالب ِعلم ذہین ہو ، محنتی ہو ۔ (٢) اُس کا اُستاد باکمال ہو ، علم کو منتقل کرنے کی اُس میں صلاحیت ہو ، باکمال کا یہ مفہوم ہے ، خود جانتا ہے اَور جو علم اللہ نے اُس کو سینے اَور دماغ میں دیا ہے وہ اپنے علم کو منتقل بھی کردے طالب علم کو، یہ بہت بڑی چیز ہے ۔ (٣) اَور تیسری چیز یہ ہے کہ وہ اُستاد اپنا علم طالب ِعلم کو دینا چاہتا ہو، محنت کرے اَور محنت لے طالب علم سے۔ اگر یہ تین شرائط ہیں اَور نصابِ تعلیم کامل اَور مکمل ہو تو وہ طالب ِعلم میں یہ لیاقت پیدا کردے گا کہ اَب وہ مطالعہ کرکے بے پڑھی کتابوں کو حل کرسکتا ہے۔میں اِسی لیے اپنے طلباء ِعزیز سے کہتا بھی رہتا ہوں کہ جن طلباء کو اللہ نے صلاحیت دی ہے اَور اُنہوں نے محنت سے پڑھا ہے ، اَساتذہ اَصحابِ فنون تھے ، اُنہوں نے چاہا کہ اپنے علم کو منتقل کردیں ، محنت کی ہے اَور محنت لی ہے ، اُن طلباء کو اپنی تعلیمی سرگرمیاں آگے بڑھانا چاہئیں ، مطالعہ کرنا چاہیے ، کتابوں کو پڑھنا چاہیے تاکہ وہ مستقبل میں ایک بہترین مدرس بن کر مدارس کو آباد کرسکیں، اُن کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔وہ طلباء جن کے اَندر یہ