ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2012 |
اكستان |
|
حضرت تھانوی کا بڑا نپاتُلا معاملہ ہوا کرتا تھا لیکن حضرت نے اپنے اُستاد کے لیے اپنے دسترخوان کو سجاڈالا ، جو کرسکتے تھے کرلیا ، حضرت نے پوچھا کہ مولوی اَشرف علی ! اِس تکلف کی کیا علّت ہے ؟ حضرت تھانوی اِنتہائی ذہین آدمی تھے ، فوراً فرمایا : حضرت ! اِس کی علت آپ کی تشریف آوری کی قلت ہے۔یہ کمالات جو حضرت تھانوی میں پیدا ہوئے،یہ کہاں سے آئے تھے ؟ حضرت مولانا اَنورشاہ صاحب کشمیری رحمة اللہ علیہ حافظِ حدیث،اللہ نے اِنہیںعلم کا سمندر عطا کیا تھا۔اِن ہی میں حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب مفتی اعظم،بڑے بڑے مفتی اِن کے پیروں کو چُھوا کرتے تھے ، دارُالعلوم کے مفتی ، بڑے ماہر آدمی تھے ، فتوی کے اَندر شامی کا مطالعہ تین مرتبہ کیا تھا اَور کسی بھی مسئلے کو تلاش کرنا ہوتا تھا تو بس ایک دفعہ کتاب کھولتے تھے اَور پانچ سات صفحے اِدھریاپانچ سات صفحے اُدھر،اِتنی مستحضر تھی۔حضرت مفتی اعظم کے اِنتقال کا وقت قریب تھا ، حضرت رحمة اللہ علیہ تشریف لے گئے اَور مفتی مہدی حسن صاحب بھی ساتھ ساتھ ، حضرت مفتی صاحب سیّد تھے اَور حضرت مفتی اعظم رحمة اللہ علیہ قوم کے نائی تھے ، حجام تھے ، لیکن علم ایسی چیز ہے کہ حضرت مفتی صاحب لیٹے ہوئے تھے جہاں سے نظر پڑی وہیں سے دَوڑے جھکتے ہوئے مفتی مہدی حسن آئے اَور جاکر اُن کے قدموں میں گرگئے ، اِتنا بڑا علم تھا اَور کہاں سے پیدا ہوا ؟ حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ سے ! مجھ سے حضرت رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت مفتی صاحب کا کمال یہ تھا کہ بڑے بڑے مضامین بہت ہی مختصر اَور جامع اَنداز میں بیان کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے،فرمایاکہ مجھے اَورمفتی کفایت اللہ صاحب کوحضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ نے پڑھایا اَور پرچۂ اِمتحان بھی بنایا ، میں نے چھ صفحے لکھے اَور حضرت مفتی صاحب نے بارہ سطریں لکھی تھیں جواب میں اَور حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ نے دونوں کو برابر نمبر عنایت فرمائے تھے۔کیسے بڑے بڑے لوگ تھے اَور کتنا علم تھا اُن کے اَندر۔یہاں پاکستان (لاہور) میں حضرت مولانا اَحمد علی صاحب مفسرِ قرآن حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کے شاگرد تھے ، مولانا شبیر اَحمد عثمانی ، حضرت شیخ الہند کے شاگر تھے ، بڑے بڑے لوگ جس میدان کے اَندر دیکھیے ، حضرت شیخ الہند کے شاگردنظرآئیںگے۔