ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2011 |
اكستان |
|
بھروسہ دَراصل مصیبت اَور پریشانی کے زمانہ میں معلوم ہوتا ہے جب تک کسی آدمی کو مصیبت سے واسطہ نہ پڑا ہو اُس کا توکل قابلِ اعتماد نہیں ہے یہ توکل مصائب ہی میں پرکھا جاتا ہے۔ توکل کا یہ اعلیٰ مقام شیخ الاسلام کے یہاں پایا جاتا ہے۔ سید پور، بھاگلپور کے دو مشہور واقعات (جن کو آگے چل کر بیان کروں گا) ہیں کہ دُشمن جان لینے کی فکر میں ہیں لیکن دُنیا کی یہ عظیم ترین ہستی اُس وقت بھی مسکرا رہی تھی۔ کسی خادم نے عرض کیا حضرت اَب سفر کرنا موقوف فرمادیں۔ فرمایا کیوں؟ عرض کیا کہ حضور لیگی غنڈے آپ کی جان کے دُشمن ہیں، فرمایا ایک دفعہ مرنا ہے بار بار نہیں جس کی جان ہے جب چاہے لے لے ہم کو کیا عذر ہے۔ ١٩٤٧ء سے پیشتر جو غنڈہ گردی رہی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حضرت جس طرف جاتے تھے لیگی غنڈے گالیوں، پتھروں لاٹھی ڈنڈوں سے اِستقبال کرتے تھے لیکن اِس مجاہد ِاعظم مرد ِجلیل نے کبھی جان کا خوف نہیں کیا بلکہ سر کو ہتھیلی پر لیے اِعلاء ِکلمة اللہ کے لیے پھرتے رہے۔ پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے سوا کوئی حفاظت کا سامان نہیں، نہ فوج نہ پولیس، نہ تلوار نہ بندوق، بے سرو سامان اللہ کے بھروسے پر پھرتے تھے۔حضرت شیخ الاسلام کا یہ توکل آنحضرت ۖ کی اِس زندگی میں ملاحظہ فرمایئے : مکہ معظمہ ہے مشرکین ِمکہ جان کے دُشمن ہیں نہ کوئی یار ہے نہ کوئی مددگار حتی کہ عزیزو اَقارب اَور دوست واَحباب نے ساتھ ہی نہیں چھوڑا بلکہ جان کے دُشمن ہوگئے ،کوئی آدمی بیت اللہ میں نماز پڑھنے نہیں دیتا کوئی سجدہ کی حالت میں گردن پر اُونٹ کی اَوجھڑی ڈال جاتا ہے، طائف جاتے ہیں تو وہاں پتھروں اَور دیوانے کتوں کو پیچھے لگادیا جاتا ہے غرض کہ جدھر جاتے ہیں جان کا خطرہ ہے کسی کا سہارا نہیں ہے صرف اللہ پر بھرسہ اَور تکیہ کیے پھر رہے ہیں اَور فرائض ِرسالت اَنجام دے رہے ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام کی ١٩٤٧ء سے پیشتر کی متوکلانہ زندگی آنحضرت ۖ کی زندگی سے کس قدر مشابہ ہے اِس کا نام ہے فنا فی الرسول ہونا اَور توکل علی اللہ، جب جان جیسی عزیز چیز کے بارے میں اِتنا توکل ہے تو توکل علی المال کا کیا ٹھکانا ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ آپ کے یہاں سینکڑوں مہمانوں کا ہجوم ہوتا تھا لیکن کبھی گھبراہٹ نہیں برابر کھلاتے پلاتے اَور لُٹا تے رہتے تھے پھر نہ کوئی جائد اد ہے نہ حکومت نہ کسی حکومت سے وظیفہ مقرر ہے نہ جاگیر۔