ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2011 |
اكستان |
|
کا اہل نہیں ہوں یا مجھے اِس کی حاجت نہیں ہے۔ حضرت اِمام اعظم اَبو حنیفہ کو قاضی القضاة کا عہدہ دربارِ خلافت سے پیش کیا گیا لیکن آپ نے صاف اِنکار کردیا کہ میں اِس کا اہل نہیں ہوں، اِس کے مقابلہ میں برسوں کی قید و بند کی مصیبت برداشت کی لیکن دُنیاوی اعزاز کو قبول نہ کیا بلکہ آخرت کے اعزاز کے متلاشی رہے، ایسے ہی حضرات کے بارے میں اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتا ہے : تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۔ (الایة) ''یہ آخرت کا گھر اُن ہی لوگوں کے لیے ہم نے منتخب کیا ہے جو زمین میں کسی بلندی کے خواہاں نہیں اَور نہ اُس میں فساد پھیلاتے ہیں۔ '' حضرت جب تک حیات رہے دارُالعلوم سے بقدر کارگزاری تنخواہ لیتے بلکہ حق ِخدمت سے بھی کم جتنے دِن پڑھانا اُتنے ہی اَیام کی تنخواہ لینا چنانچہ بہت سے مہینے ایسے گزر جاتے تھے کہ اُن میں ایک پیسہ بھی تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ دارُالعلوم دیوبند کا دستور ہے کہ اگر ملازم بیمار ہو تو اُس کو ایک ماہ کی رُخصت مع تنخواہ ملتی ہے اَور پھر نصف تنخواہ کے حساب سے ملتی ہے۔ چنانچہ حضرت شیخ الاسلام تقریبا ًچار ماہ یا اِس سے کچھ زائد بیمار رہے لیکن ایک پیسہ تنخواہ کا نہ لیا حضرت مہتمم صاحب نے ہرچند چاہا کہ قبول فرمالیں لیکن صاف اِنکار کردیا۔ اَبو سلیمان فرماتے ہیں : فَکُلّ مَنْ تَرَکَ الدُّنْیَا شَیْئًا مَعَ الْقُدْرَةِ عَلَیْہِ خَوْفًا عَلٰی قَلْبِہ وَعَلٰی دِیْنِہ فَلَہ مَدْخَل فِی الزُّھْدِ ۔ (اِحیاء العلوم ) ''جس نے تھوڑی سی دُنیا بھی باوجود قدرت کے اپنے قلب اَور دین کا خوف سمجھتے ہوئے ترک کردی پس اُسی کو زُہد میں دسترس ہے اَور وہ زَاہد ہے۔ '' آپ ہمیشہ ضرورت کے مطابق دُنیا کی اَشیاء کو اِختیار کرتے اَور باقی سب راہِ خدا میں مہمانوں پر اَور غرباء اَور مساکین پر صرف کردیتے تھے حقیقتًا یہ زُہد کا نہایت اعلیٰ درجہ ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کی