ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2011 |
اكستان |
|
مطابق ایک مرتبہ حسین رضی اللہ عنہ اُن کے پاس گئے، اُس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے تنہا ئی میں کچھ گفتگو کر رہے تھے اَور ابن ِعمر رضی اللہ عنہ دروازہ پر کھڑے تھے، حسین رضی اللہ عنہ بھی اُن ہی کے پاس کھڑے ہوگئے اَور بغیر مِلے ہوئے اُنکے ساتھ واپس چلے گئے، اِسکے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی توآپ نے پوچھا کہ آئے کیوں نہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا اَمیر المؤمنین !میں حاضر ہوا تھا مگر آپ معاویہ سے گفتگو میں مشغول تھے اِس لیے عبداللہ کے ساتھ کھڑا رہا پھر اُن ہی کے ساتھ لوٹ گیا۔ فرمایا تم کو اُن کا ساتھ دینے کی کیا ضرورت تھی، تم اُن سے زیادہ حقدار ہو جو کچھ ہماری عزت ہے وہ خدا کے بعد تم ہی لوگوں کی دی ہوئی ہے ۔ ١ عہد ِعثمانی رضی اللہ عنہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پورے جوان ہوچکے تھے، چنانچہ سب سے اَوّل اِسی عہد میں میدانِ جہاد میں قدم رکھا اَور سن ٣٠ ہجری میں طبرستان کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے ٢ پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت برپا ہوئی اَور باغیوں نے قصر خلافت کا محاصرہ کر لیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں بھائیوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت پر مامور کیاکہ باغی اَندر گھسنے نہ پائیں چنانچہ حفاظت کرنے والوں کے ساتھ اِن دونوں نے بھی نہایت بہادری کے ساتھ باغیوں کو اَندر گھسنے سے روکے رکھا۔ جب باغی کوٹھے پر چڑھ کر اَندر اُتر گئے اَور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر ڈالا اَور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہادت کی خبر ہوئی تو اُنہوںنے دونوں بھائیوں سے نہایت سختی کے ساتھ باز پرس کی کہ تمہارے ہوتے ہوئے باغی کس طرح اَندرگھس گئے۔ ٣ (جاری ہے) ١ اِصابہ ج ٣ ص ١٥ ٢ ابن ِ اثیر ج ٣ ص ٨٤ ٣ تاریخ الخلفاء لسیوطی ص ١٥٩