ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2011 |
اكستان |
|
وِلادت باسعادت کی خبر سن کر آنحضرت ۖ تشریف لائے اَور فرمانے لگے بچے کو دِکھاؤ کیا نام رکھا گیا؟ اَور نومولود بچہ کو منگا کر اُس کے کانوں میں اَذان دی، اِس طرح گویا پہلی مرتبہ خود زبانِ وحی واِلہام نے اِس بچہ کے کانوں میں توحید اِلٰہی کا صور پھونکا دَرحقیقت اُسی صور کا اَثر تھا کہ سرداد نداد دست در دستِ یزید حقا کہ بنائے لآالہ اَست حسین پھر فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا کو عقیقہ کرنے اَور بچہ کے بالوں کے ہم وزن چاندی خیرات کرنے کا حکم دیا۔ پدر بزرگوار کے حکم کے مطابق فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا نے عقیقہ کیا ١ والدین نے ''حرب'' نام رکھا تھا لیکن آنحضرت ۖ کو یہ نام پسند نہ آیا آپ نے بدل کر'' حسین'' رکھا۔ ٢ عہد ِنبوی ۖ : حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بچپن کے حالات میں صرف اُن کے ساتھ آنحضرت ۖ کے پیار اَور محبت کے واقعات ملتے ہیں، آپ ۖ اُن کے ساتھ غیر معمولی شفقت فرماتے تھے تقریبًا روزانہ دونوں کو دیکھنے کے لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اَور دونوں کو بُلا کر پیار کرتے اَور کھلاتے، دونوں بچے آپ سے بے حد مانوس اَور شوخ تھے لیکن آپ نے کبھی کسی شوخی پر تنبیہ نہیں فرمائی بلکہ اُن کی شوخیاں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ اِس قسم کے تمام حالات حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں لکھے جا چکے ہیں اِس لیے یہاں اِن کے اعادہ کی حاجت نہیں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سن صرف سات برس کا تھا کہ نانا کا سایۂ شفقت سر سے اُٹھ گیا۔ عہد ِصدیقی رضی اللہ عنہ : حضرت اَبو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اِمام حسین رضی اللہ عنہ کی عمر سات آٹھ سال سے زیادہ نہ تھی، اِس لیے اُن کے عہد کا کوئی خاص واقعہ قابل ِذکر نہیں ہے بجز اِس کے کہ حضرت اَبو بکر رضی اللہ عنہ نبیرۂ رسول کی حیثیت سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بہت مانتے تھے۔ ١ مستدرک حاکم ج ٣ ص ٧٦ فضائل حسین، موطااِمام مالک کتاب العقیقہ باب ماجاء فی العقیقہ میں بھی اِس کاذکر ہے۔ ٢ اُسد الغابہ ج ٢ ص ١٨