ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2011 |
اكستان |
|
خوش ہے ناخوش ہے تو پھر اُنہوں نے کثرت ِ عبادت کے بارے میں رسول اللہ ۖ سے کہا آپ نے اُنہیں بُلایا اَور کم سے کم کرنے کو کہا تو جتنا قرآن نازل ہوا تھا یاد تھا اُن کو وہ سارا ایک رات میں پڑھتے تھے آپ نے فرمایا نہیں چالیس دِن میں پورا کرو تیس دِن میں پورا کرو ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ تین دِن میں پورا کرلیا کرو مگر وہ یہ کہہ رہے تھے کہ روز پڑھنے دیں لیکن آپ نے فرمایا نہیں تین سے کم میں نہ کرو ختم، فرمایا کہ روزہ مہینہ میں تین دِن رکھ لیا کرو بس اَور ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ہوتا ہے تو تیس دِن بن جائے گا روزہ کا ثواب اُنہوں نے کہا کہ نہیں میں اِس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں حتی کہ اِصرار کر کر کے اُنہوں نے اِجازت لے لی کہ ایک دِن رکھیں روزہ ایک دِن نہ رکھیں اُنہوں نے کہا میں اِس سے بھی زیادہ کر سکتا ہوں یعنی کسی کسی دِن چھوڑ دیا کروں گا روزہ تو رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ یہ اَللہ کے نبی حضرت داود علیہ الصلوة والسلام کا طریقہ تھا کہ ایک دِن رکھتے تھے روزہ ایک دِن نہیں رکھتے تھے اَور اِس سے زیادہ اَفضل خدا کے یہاں کوئی ہے نہیں تم اگر روز بھی رکھو گے تو وہ اِس سے افضل نہیں بنے گا اَور یہ چیز اِنسان نہیں پہچان سکتا کہ اللہ تعالیٰ کو کونسی چیز پسند آئی یہ تو نبی بتا سکتا ہے ۔ اُس زمانہ میں عبادت کی طرف رَغبت تھی اَب نفرت ہے : تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس وقت طبیعت اِتنی راغب تھی عبادتوں کی طرف اَب طبیعت نفرت کھاتی ہے بھاگتی ہے عبادت سے، دونوں میں بڑا فرق ہوگیا۔ اِس دَور میں اگر کوئی عبادت کی طرف آجائے تو گویا سارے زمانے سے ٹکراؤ اُس کا ہو رہا ہے تو اِس دَور میں جو عبادت کی طرف آرہا ہے اَور خدا نے اُسے توفیق بخش دی ہے تو یہ اُس کا خاص اِنعام ہے اَور وہ اُس طبقہ میں داخل ہورہاہے اگر کوئی سنت کی پیروی پر زور دیتا ہے کہ بس یہ پوچھنا ہے سنت کیا ہے اَور بات سنی نہیں ہے جو سنت ہے وہ کرنی ہے کیونکہ رسول اللہ ۖ نے زیادہ کرنے سے تو روکا ہے صحابہ کرام کو جگہ جگہ روکا ہے اَب جب سنت پر عمل کروگے تو خود کو بھی بڑا مشکل پڑے گا کیونکہ سنت تو یہ ہے کہ سو ،سو کے اُٹھو ،سو کے اُٹھنا اَور مشکل ہے صرف جاگتے رہنا آسان کام ہے سو کر اُٹھنا بڑا مشکل ہے وہ یہ ہے کہ سو بھی اَور اُٹھو بھی اَور سنت یہ ہے اِتنا پڑھو اَور اِتنا چھوڑدو وغیرہ وغیرہ تمام چیزوں میں سنت حاوی ہے دِن اَور رات کو اِنسان کے اَور ساری زندگی کو اَوّل سے آخر تک سنت حاوی ہی حاوی ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ سنت کیا ہے یعنی رسول اللہ ۖ نے کیا کیا صحابہ کرام نے کیا کیا۔