ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2011 |
اكستان |
|
عہد ِفاروقی رضی اللہ عنہ : حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اِبتدائی عہد ِ خلافت میں بھی بہت صغیر السن تھے اَلبتہ آخری عہد میں سن ِشعور کو پہنچ چکے تھے لیکن اِس عہد کی مہمات میں اُن کا نام نظر نہیں آتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر بڑی شفقت فرماتے تھے اَور قرابت ِ رسول ۖ کا خاص لحاظ رکھتے تھے چنانچہ جب بدری صحابہ کے لڑکوں کا دوہزار وظیفہ مقرر کیا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا محض قرابت ِرسول کے لحاظ سے پانچ ہزار ماہوار مقر ر کیا۔ ١ آپ کسی چیز میں بھی حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہم کی ذات ِگرامی کو نظر اَنداز نہ ہونے دیتے تھے، ایک مرتبہ یمن سے بہت سے حلے آئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ میں تقسیم کیے۔ آپ قبر اَور منبر نبوی کے درمیان تشریف فرما تھے لوگ اُن حلوں کو پہن پہن کر شکریہ کے طور پر آکر سلام کرتے تھے، اِسی دَوران حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے، آپ کاگھر حجرہ مسجد کے درمیان تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظر اِن دونوں پر پڑی تو اُن کے جسموں پر حلے نظر نہ آئے، یہ دیکھ کر آپ کو تکلیف پہنچی اَور لوگوں سے فرمایا مجھے تمہیں حلے پہنا کر کوئی خوشی نہیں ہوئی، اُنہوں نے پوچھا اَمیرالمؤمنین یہ کیوں؟ فرمایا اِس لیے کہ اِن دونوں لڑکوں کے جسم اِن حلوں سے خالی ہیں، اِس کے بعد فورًا حاکم ِیمن کو حکم بھیجا کہ جلدسے جلد دو حلے بھیجو اَور حلے منگواکر دونوں بھائیوں کو پہنانے کے بعد فرمایا اَب مجھے خوشی ہوئی۔ ایک روایت یہ ہے کہ پہلے حلے حضرت حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کے لائق نہ تھے ٢ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے صاحبزادے عبداللہ سے بھی جو عمراَور ذاتی فضل و کمال میں اُن دونوں سے فائق تھے زیادہ مانتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ منبر نبوی ۖ پر خطبہ دے رہے تھے کہ حسین رضی اللہ عنہ آئے اَور منبر پر چڑھ کر کہا، میرے باپ (رسول اللہ ۖ )کے منبر سے اُترو اَور اپنے باپ کے منبر پر جاؤ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِس طفلانہ شوخی پر فرمایا میرے باپ کے توکوئی منبر ہی نہ تھا اَور اُنہیں اپنے پاس بٹھا لیا، خطبہ تمام کرنے کے بعد اُنہیں اپنے ساتھ گھر لیتے گئے راستہ میں پوچھا کہ یہ تم کو کس نے سکھایا تھا؟ بولے واللہ کسی نے نہیں، پھر فرمایا کبھی کبھی میرے پاس آیا کرو چنانچہ اِس اِرشاد کے ١ فتوح البلدان بلاذری ذکر عطا ء عمر بن الخطاب ٢ ابن عساکر ج٤ ص ٣٢١، ٣٢٣