ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2011 |
اكستان |
|
قسط : ١ حضرت اِمام حسین بن علی رضی اللہ عنہما ( حضرت مولانا شاہ معین الدین صاحب ندوی ) نام و نسب : '' حُسین'' نام،''ابوعبداللّٰہ'' کنیت ،''سیّد شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّةِ '' اَور ''رَیْحَانَةِ النَّبِیِّ'' لقب ، علی المرتضیباپ اَورسیّدہ بتول جگر گوشۂ رسول ماں تھیں، اِس لحاظ آپ کی ذات گرامی قریش کا خلاصہ اَور بنی ہاشم کا عطر تھی، شجرہ طیبہ یہ ہے: حسین بن علی بن اَبی طالب بن ہاشم بن عبدمناف قرشی ہاشمی ومطلبی۔ ع دل و جان باد فدایت چہ عجب خوش لقبی پیدائش : اَبھی آپ شکمِ مادر میں تھے کہ حضرت حارث رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی نے خواب دیکھا کہ کسی نے رسولِ اَکرم ۖ کے جسم اَطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر اِن کی گود میں رکھ دیا ہے۔ اُنہوں نے آنحضرت ۖ سے عرض کیا یارسول اللہ (ۖ)میں نے ایک ناگوار اَور بھیانک خواب دیکھا ہے، فرمایا کیا؟ عرض کیا ناقابلِ بیان ہے، فرمایا بیان کرو آخر کیا ہے؟ آنحضرت ۖ کے اِصرار پر اُنہوں نے خواب بیان کیا: آپ ۖنے فرمایا یہ تو نہایت مبارک خواب ہے، فاطمہ( رضی اللہ عنہا) کے لڑکا پیدا ہوگا اَور تم اُسے گود میں لوگی۔ ١ کچھ دِنوں کے بعد اِس خواب کی تعبیر ملی اَورریاض نبوی میں وہ خوش رنگ اَرغوانی پھول کھلا جس کی مہک حق و صداقت، جرأت و بسالت، عزم و اِستقلال، اِیمان و عمل اَور اِیثار و قربانی کی وادِیوں کو اَبدالآباد تک بساتی اَور جس کی رنگینی عقیق کی سُرخی، شفق کی گلونی اَور لالہ کے داغ کو ہمیشہ شرماتی رہے گی یعنی شعبان ٤ ھ میں علی کا کاشانہ حسین کے تولد سے رَشک ِگلزار بنا۔ ١ مستدرک حاکم ج ٣ ص ١٧٦