ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2010 |
اكستان |
|
عصری تعلیم دینے کا پابند نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان کے آئین کے مطابق تعلیم کی آزادی کا حق مسلّم ہے اَور اِس سلسلے میں کسی قسم کی قد غن نہیں لگائی جا سکتی، تاہم جو مدارس اپنے یہاں عصری تعلیم نہیں دیں گے اُن کی اَسناد کی حیثیت بھی عصری تعلیم دینے والے اِداروں کے مساوی نہیں ہوگی۔ یہ بھی یاد رہے کہ عصری تعلیم کو مدارس میں شامل کرنا کوئی بیرونی ایجنڈا نہیں بلکہ وفاق المدارس کی قیادت اَور ہمارے اَکابر نے اِس کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے آج سے دو دہائیاں قبل 1989ء میں مڈل تک عصری تعلیم کو شامل ِ نصاب کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ اُس دَور کی بات ہے جب حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات وغیرہ کا کوئی سلسلہ نہیں تھا لیکن اِس کے باوجود اُس وقت مڈل تک نصاب میں انگریزی، ریاضی سمیت جملہ عصری مضامین کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا گیا اَور متوسطات کے نام سے مڈل تک عصری تعلیم دی جانے لگی اَور 1989ء سے لے کر اَب تک متوسطہ باقاعدہ مدارس کے نظام کا حصہ ہے۔ اِس کے بعد 2002-03 ء میں نویں اَور دسویں کلاس کی تعلیم کو اَز خود وفاق المدارس نے اپنے نصاب میں شامل کیا جو آج تک اِختیاری طور پر نصاب میں شامل ہے۔ اَب صرف ایک قدم آگے بڑھ کر اِنٹرمیڈیٹ تک تعلیم دینے کا اِرادہ کیا گیا ہے کیونکہ وفاق المدارس کی ہمیشہ یہ پالیسی رہی ہے کہ ایسی عصری تعلیم جو ہمارے مقاصد میں مخل نہ ہو بلکہ ممدو معاون ہو اُسے نصاب میں شامل کرنے میں ہمیں کوئی تردد نہیں ہوگا۔ اَلبتہ اِس اِتفاق کے تناظر میں بعض حلقوںکی طرف سے اِس خدشے کا اِظہار کیا جا رہا ہے کہ اِس فیصلے سے ہماری دینی تعلیم متا ثر ہوگی۔ اِس بارے میں اَکابر علمائے کرام اَور اَربابِ علم و دَانش کو سوچنا چاہیے اَور اِس کا کوئی بہتر حل تجویز کرنا چاہیے۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ درسِ نظامی کا حجم کم نہ کیاجائے بلکہ تعلیم کا دَورانیہ بڑھا دیا جائے۔ دُوسری بات جس پر ہمارے یہاں بہت حساسیت پائی جاتی ہے وہ حکومتی مداخلت ہے۔ اِس حوالے سے یاد رہے کہ حکومتی نمائندے مدارس کی تنظیموں کی مجالسِ عاملہ یا مجالسِ شوری میں شامل نہیں ہوں گے بلکہ محض نصابی کمیٹی میں شامل ہوں گے اَور وہ بھی صرف اُس اِجلاس میں شریک ہوں گے جس کے ایجنڈے میں