ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2010 |
اكستان |
|
دونوں نمائندوں کا دینی نصاب و نظام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ (٦) عصری مضامین کے نصاب ِ تعلیم، معیار ِ تعلیم اَور معیارِ امتحان میں یکسانیت پیدا کر نے کے لیے مدارس کے نمائندہ وفاقوں اَور حکومت کے درمیان ایک مشترکہ اِدارہ بنے گا جس کا نام، دائرہ اِختیار، دائرہ کار اَور ہیئت کے حوالے سے اَگلے اِجلاس میں مشارت کی جائے گی۔ (٧ ) رجسٹریشن ایکٹ جو 2006 ء میں جاری ہو چکا اَور نافذ العمل بھی ہے، دینی مدارس اُس کی مکمل پاسداری کریں گے۔ (8) حکومت کسی بھی مدرسے کے خلا ف کوئی کارروائی نہیں کرے گی تاوقتیکہ وہ ٹھوس ثبوت کے ساتھ متعلقہ وفاق کو اعتماد میں نہ لے۔ (9) ایکٹ آف پارلیمنٹ / ایگزیکٹیوآرڈر کا مسودہ حکومت اَور اتحاد تنظیمات ِ مدارس کی باہمی مشارت سے تیار کیا جا ئے گا، حکومت یکطرفہ طور پر کوئی مسودہ پیش نہیں کرے گی ۔ یاد رہے کہ یہ معاہدہ حادثاتی طور پر اَور اَچانک نہیں ہو گیابلکہ اِس سلسلہ میں گزشتہ دس سالوں سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ اِس عرصے میں اِن مذاکرات میں مختلف نشیب و فراز آئے، بعض مواقع پر ڈیڈلاک بھی پیدا ہوا اَور بعض مواقع پر یوں محسوس ہو ا جیسے حکومت اَور مدارس کی قیادت کسی حتمی نتیجے اَور منزل تک پہنچ جائے گی مگر یہ سلسلہ جاری رہا اَور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اِن مذاکرات کے دَوران ہر مرحلے پر مدارس کی تمام نمائندہ تنظیموں نے اپنی اپنی مجالسِ عاملہ کے مختلف اِجلاسوں میں تفصیل سے حکومت اَور مدارس کے مابین زیرِ بحث آنے والے اُمور پر تبادلہ خیال اَور غور و خوض کیا اَور اِس کے ممکنہ نتائج و اَثرات اَور فوائدو نقصانات پر تفصیلی بات چیت ہوئی پھر اتحاد تنظیمات ِ مدارس کے پلیٹ فارم پر بھی مشاورت ہوتی رہی حتی کہ بعض قانونی، تعلیمی اَور سیاسی ماہرین سے بھی رہنمائی طلب کی گئی اَور آئندہ بھی کوئی فیصلہ مدارس کے نمائندہ تنظیموں کی مجالسِ عاملہ و مجالسِ شوریٰ اَور دیگر اَربابِ مدارس کو اعتماد لیے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ جہاں تک اِس اِتفاق کے نتیجے میں طے پانے والی عصری تعلیم کا معاملہ ہے، اِس کے بارے میں اَرباب ِ مدارس یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ عصری تعلیم جبرًا مدارس پر مسلط نہیں کی جائے گی اَور کوئی بھی مدرسہ