ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2010 |
اكستان |
|
روپے کا نوٹ ڈال کر میلہ دیکھنے گیا وہ جب وہاں پہنچا تو کسی نے اُس کی جیب سے دس روپے نکال لیے جب رات کو وہ گائوں واپس آیا تو گائوں والوں نے پوچھا سُنا دوست محمد میلہ کیسا رہا؟ وہ غصے میں بھرا ہوا تھا کہنے لگا کون سا میلہ کیسا میلہ؟ یہ سب ڈرامہ میرے دس روپے نکالنے کے لیے رچایا گیا تھا۔ میں نے بھی کہا کہ جناب یہ فلائٹ لیٹ ہونے کا ڈرامہ صرف میرے جوتے چرانے کے لیے کیا گیا ہے ورنہ مراکش کو تو ہم اَلودع کر چکے تھے ہمیں دوبارہ اِس شہر میں لانے کا آخر اَور مقصد کیا تھا؟ صرف یہی نہ کہ ہمارے جوتے چوری کیے جائیں جس پر دونوں ساتھی خوب ہنسے۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی اِس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کہا کہ سندھ میں جب درباروں اَور خانقاہوں پر سالانہ میلے لگتے ہیں تو سندھی خوب بن سنور کر مونچھوں کو تائو دیکر اَور سر پر پگڑی باندھے نکلتے ہیں تو جب کوئی راستے میں اُن سے پوچھتا ہے کہ سائیں کدھر کا اِرادہ ہے ؟تو وہ بڑے جوش و جذبے کے ساتھ کہتا ہے کہ سائیں آپ کو نہیں پتہ میلہ خوب پھٹا ہے سائیں یعنی خوب ہلہ گُلہ مچا ہوا ہے۔ مگر جب وہ رات کو واپس لوٹتا ہے تو مونچھیں نیچی ہوتی ہیں کپڑے گردو غبار سے اَٹے ہوتے ہیں پگڑی ہاتھ میں پکڑی ہوتی ہے ، گائوں والے جب پوچھتے ہیں کہ سائیں میلہ کیسا رہا؟ تو وہ کہتا ہے کہ دفعہ کرو سائیں میلہ کیا تھا دُھوڑ ہی دُھوڑ تھی سائیں بالکل بکواس سائیں۔ جس پر ایک دفعہ پھر ہم سب خوب ہنسے اَور اِسی کے ساتھ ہمارا مراکش کا سفر بھی اِختتام پذیر ہوا۔ بقیہ : اِسلام کی اِنسانیت نوازی نیزآج عدالتوں میں کلرکوں اَور پیش کاروں سے لے کر جج اَور منصف تک رشوت خوری کی وبا ء عام ہے۔ اَور دولت کی گرم بازاری نے معاشرہ کے کمزور طبقات کو اِنصاف سے محروم کرکے رکھ دیا ہے۔ اِسلام ایسی حق تلفیوںکو اِنسانیت سے گری ہوئی حرکت سمجھتاہے اَوروہ مفت اَور جلدی اِنصاف کا نظام دُنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، یہ بھی اُس کی اِنسانیت نوازی کی بڑی نشانی ہے۔(جاری ہے)