ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2010 |
اكستان |
|
وجہ والدہ کی تیمارداری یا اُنکی خدمت ہے جس کی وجہ سے وہ نہیں آسکے رسول اللہ ۖ نے اُن کو ایک درجہ معذور قراردیا ہے تو صحابیت سے تووہ رہ گئے۔ صحابی ہونا رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کی زیارت سے مشرف ہونا یہ ایک فضیلت ہے خاص جو کسی اَور طرح حاصل نہیں کی جاسکتی بس جن کو ملنی تھی مل گئی لیکن یہ نہ آنے میں معذور ہیں۔ حضرت اُویس قرنی مستجاب الدعوات : اِرشاد فرمایا فَمَنْ لَقِیَہ مِنْکُمْ فَلْیَسْتَغْفِرْلَکُمْ ١ تو اُن سے جو بھی ملے اپنے لیے اُن سے دُعاء کرائے، دُعاء کیا کرائے یہ دُعاء کرائے کہ اللہ تعالیٰ ہماری خطائوں کو معاف فرمائے ۔ مغفرت کی دُعا بڑی اہم ہے : یہ دُعاء بڑی اہم ہے اَور بہت ہی بڑا ذخیرہ ہے اگر آدمی اپنی نیکیوں پر اعتماد کرے تو اُس میں غلطی ہوگی کیونکہ وہ سمجھ رہا ہوگا کہ میری نیکیاں ہیں۔ حقیقتًا وہ نیکی ہی نہ ہو اللہ تعالیٰ کے یہاں ،معاذ اللہ قبول نہ ہو۔ اللہ کی رحمت اَور اپنے گناہوں پر نظر رکھتے ہوئے اِستغفار کرتے رہنا چاہیے : تو اِس کی بہ نسبت سیدھی سی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر نظر رکھے اَور اپنے گناہوں پر نظر رکھے بس، اَور اِستغفار بھی کرتا رہے تو اُس سے گناہ صاف ہوتے رہیں گے اَور بخشش کا ذریعہ تو صرف اللہ کی رحمت ہے اِس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے کہ اِنسان جس پر ناز کرسکے اعتماد کرسکے بھروسہ کرسکے کوئی چیز نہیں ہے۔ رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے جو تعلیم فرمائی وہ یہ کہ جب وہ ملیں تو اُن سے دُعاء کرانا اَور دُعاء یہ کرانا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمادے بس اُس کی معافی جو ہے وہ سب سے بڑی چیز ہے۔ دُوسری روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ۖ سے حضرتِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سُنا فرمایا اِنَّ خَیْرَ التَّابِعِیْنَ رَجُل یُقَالُ لَہ اُوَیْس بہترین تابعین میں ایک شخص ہیں جنہیں اُوَیس کہا جاتا ہے وَلَہ وَالِدَة اُن کی ماں ہے بس وَکَانَ بِہ بَیَاض اُنہیں برص کی بیماری تھی فَمُرُوْہُ فَلْیَسْتَغْفِرْلَکُمْ ٢ اُس سے کہنا کہ وہ تمہارے لیے اِستغفار کرے گویا مستجاب الدعاء ہیں خدا کو محبوب ہیں اُن سے یہ دُعاء اپنے لیے کرانا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِسی طرح کیا ہے یہ گمنام رہنا چاہتے تھے شہرت سے بہت دُور رہتے تھے بہت یکسو رہتے تھے لوگوں سے، طبیعت ایسی بنی ہوئی تھی۔ حضرتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے یہ اَور ١ مشکوة شریف ص ٥٨١ و ٥٨٢ ٢ مشکوة شریف ص ٥٨٢