ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2010 |
اكستان |
|
نگریزوں نے اپنے دورِ اِستعمار میں غلام رعایہ کے لیے رکھے تھے جو قطعاً غیر اِسلامی ہیں اَور پہلے گزر چکا ہے کہ اِسلام میں جرمانے کی سزا کا ثبوت ہی نہیں ہے جب یہ سزائیں یعنی کوڑے اَور جرما نے ناحق ہوئے تو شرعًا یہ ظلم شمار ہونگے اَور ظلم خدا نے حرام قرار دیا ہے اِس لیے حکومت کو چاہیے کہ فورًا ہی اِن ضابطوں کو منسوخ کردے ورنہ خدا کی مدد مظلوم کے ساتھ ہو گی اَور حکومت تائید ِالٰہی سے محروم ہو جائے گی۔ یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں نصیحت و اِخلاص کا تقاضا بھی ہے اگر حکومت خدا سے ڈرے تو اُس کا نفع ہے، حدیث شریف میں آیا ہے اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَةُ اَور فرمایا ہے اِتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہ لَیْسَ بَیْنَھَا وَ بَیْنَ اللّٰہِ حِجَاب(مشکوة عن معاذ ص ١٥٥) مظلوم کی بد دعاء سے بچو اُس کے اَور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا (ضرور لگتی ہے) ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی یہی نصیحت فرمائی اَور فرمایا کہ مظلوم خدا سے اپنا حق مانگتا ہے اَور اللہ تعالیٰ کسی حقدار کا حق نہیں روکتا۔ (مشکٰوة ص٤٣٦) (5) آپ نے سوال کیا ہے کہ اِسلام میں قید کے کیا احکام ہیں؟ جواب : اِسلام میں قید تو کیا جاتا ہے مگر کم سے کم عرصہ کے لیے مثلاً قاتل چور وغیرہ کو تاوقتیکہ اُس کے بارے میں فیصلہ ہو عدالت کے فیصلہ کے بعد یا اُسے بری کر دیا جاتا ہے یا سزا دے دی جاتی ہے، اگر قیدی کو قتل نہ کیا گیا ہو تو سزا کے بعد یعنی حد جاری کرنے کے بعد اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے، اُسے لمبی قید ہی میں چھوڑ دینا یا عمر قید اِسلام میں نہیں ہے۔ اَلبتہ قاتل کو جیل میں اُسی کے فائدہ کے پیش نظر بعض اَوقات لمبی قید ملتی ہے جس کی صورت یہ ہے کہ مقتول کی نابالغ اَولاد کے بالغ ہونے کا اِنتظار کرنا پڑتا ہے کہ مقتول کا بچہ بالغ ہونے کے بعد اپنے باپ کا قصاص لیتا ہے یا دیت (خون بہا) لیتا ہے یا قاتل کو معاف کرتا ہے۔ اُس کے بالغ ہونے تک اِنتظار کیا جاتا ہے اَور قاتل کو قید میں رکھا جاتا ہے ۔ لیکن کسی بھی قسم کے قیدی کے ساتھ گالی گلوچ جائز نہیں ،نہ ہی اُسے کسی طرح کی کھانے پینے اَور رہنے کی جگہ کی اَذیت پہنچانی جائز ہے مثلاً دھوپ میں کھڑا کرنا، نہ ہی اُسے تکلیفیں پہنچا کر بیان لینا جائز ہے، حدیث پاک میں وعید آئی ہے جو لوگوں کو عذاب دیتے ہیں اُنہیں قیامت کے دِن عذاب دیا جائے گا۔ (کتاب الخراج لابی یوسف ص: ١٧٥،١٢٥، ١٢٣) اگر قیدی مالدار ہے تو کھانا خرچہ اُس کے اپنے گھر سے ہو گا ورنہ دس درہم ماہانہ قیدی کے ہاتھ میں دیے جائیں (یہ اِمام ابو یوسف کے زمانہ میں چاندی کا سکہ تھا جو ایک دینار یعنی ساڑھے چار ماشہ سونے کے