ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2010 |
اكستان |
|
قسط : ٣ ، آخری سفر نامہ ........ چھ دِن مراکش میں ( جناب مولانا ضیاء المُحسن صاحب طیّب،برمنگھم، فاضل جامعہ مدنیہ لاہور ) ٹریفک کا نظام : مراکش میں حکومت نے سڑکوں اَور صفائی پر خصوصی توجہ دی ہے وہاں کی سڑکیں بہت اچھی اَور بین الاقوامی معیار کی ہیں۔ پورے ملک میں ہم نے کہیں بھی سڑکوں پر گڑھے پڑے نہیں دیکھے۔ صفائی ستھرائی کا نظام بھی بہت بہتر ہے کسی جگہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے نظر نہیں آئے اَور کسی کو دِن میں صفائی کرتے بھی نہیں دیکھا جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگ صفائی کا خیال رکھتے ہیں اَور جگہ جگہ گندگی نہیں پھیلاتے، دن بھر جو تھوڑا بہت کچرا اَکٹھا ہو جاتا ہے اُس کو راتوں رات اُٹھا لیا جاتا ہے۔ شہروں میں پولیس بڑی تعداد میں سفید ہیٹ اَور نیلی وَردِیوں میں ملبوس چوکوں، چراہوں اَور ٹریفک سگنل پر ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے موجود تھی ،شاید اَبھی وہ وقت نہیں آیا جب یورپ کی طرح لوگ بغیر پولیس سارجنٹ کے خود ہی ٹریفک قوانین کی پابندی کریں۔ ٹریفک سگنل کے باوجود وہاں پولیس کا ڈیوٹی دینا اَور ٹریفک کو کنٹرول کرنا اِس بات کی نشاند دہی کرتا ہے کہ لوگوں کے اَندر اَبھی تک وہ شعور پروان نہیں چڑھا کہ وہ کسی فورس کے بغیر خود سگنل اَور ٹریفک قوانین کی پابندی کریں بہر حال ٹریفک کا نظام بہت بُرا بھی نہیں اَور آئیڈیل بھی نہیں ۔ایک بات اَور ہے کہ ڈرائیوروں کے اَندر وہ چڑچڑا پن بات بات پر لڑنا جھگڑنا اَور گالی گلوچ جو برطانوی ڈرائیوروں کی ایک اِمتیازی شان ہے وہ قطعاً نہ تھی۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں اَور عام گاڑیوں میں بھی ہم نے گانے کی آواز نہیں سنی اِس پر حکومت کی طرف سے پابندی ہے یا کوئی اَورو جہ ہمیں معلوم نہیں بلکہ عام بازاروں اَور دُکانوں پر بھی ہم نے کہیں گانے کی آواز نہیں سنی یہ ایک منفرد چیز تھی۔ مراکش میں لوگ بڑی تعداد میں موٹر سائیکل کا اِستعمال کرتے ہیں اِس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ