ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2010 |
اكستان |
|
عید کا دن ہوتا ہے تو باری تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے بندوں کی عبادت پر فخر فرماتے ہیں اِس لیے کہ فرشتوں نے اِنسان کی پیدائش پر طعن کیا تھا اَوریہ اعتراض کیا تھا کہ ایسی مخلوق کو کیوں پیدا کررہے ہیں جو زمین میں فساد برپا کرے گی، فرشتوںنے کہا کہ ہم کافی ہیں آپ کی تسبیح بیان کرنے کے لیے تواللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ میں جو جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ اَور اِس رات کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ اِسی رات میں فرشتوں کی پیدائش ہوئی اوراِسی رات میں حضرت آدم علیہ السلام کا مادہ جمع ہونا شروع ہوا اَوراِسی رات کے اَندر جنت میں درخت لگائے گئے اوراِسی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اُٹھائے گئے اوراِسی رات میں بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی اوراِسی رات کو ملائکہ کی طرف سے مومنین پر سلامتی ہوتی ہے اَورفرشتوں کی ایک جماعت آتی ہے دُوسری جاتی ہے اَوربھی بہت سے خصوصیتیں ذکر کی گئی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ہمیں شب ِقدر کے حصول کی جستجو کرنی چاہیے بالخصوص رمضان المبارک کی آخری طاق راتوں میں خوب محنت سے عبادت ، توبہ،اِستغفار اَوردُعامیں مشغول رہنا چاہیے ، اگر تمام رات جاگنے کی ہمت نہ رکھتا ہو تو جس قدر بھی ہو سکے جاگے اَورنفل نماز، قرآن پاک کی تلاوت ، ذکر وتسبیح میں منہمک رہے اوراگر اِتنا بھی نہ کرسکے ، تو کم اَز کم عشاء ،تراویح اَورصبح کی نماز باجماعت اَدا کرنے کا خاص طورسے اہتمام کرے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضوراکرم ۖ سے معلوم کیا کہ یارسول اللہ ۖ اگر مجھے شب ِقدر معلوم ہو جائے تو کیا دُعا مانگوں تو حضور اَکرم ۖ نے فرمایا کہ اُس وقت خاص طورسے یہ دُعا مانگی جائے : اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ اے اللہ ! توبے شک معاف کرنے والا ہے اَور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس مجھے بھی معاف فرمادے ۔