ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2010 |
اكستان |
|
پیغام صداقت النیام سن کر میں مبہوت و ششدر ہو کر رہ گیا کیونکہ سچی بات یہ ہے کہ میرے پاس اپنے دعوے پر کوئی دلیل (نہ معقول نہ غیر معقول )نہیں تھی۔ میری حالت ١٩٣٦ء سے ١٩٤٧ء تک یہ رہی کہ میں خداوندانِ لیگ پر ایمان بالغیب رکھتا تھا جو اعلانات اَور دعاوی وہ لوگ اپنی تقریروں اَور اپنے بیانات میں قوم کے سامنے بلکہ دُنیا کے سامنے کرتے رہتے تھے میں اُن پرآنکھ بندکرکے اِیمان لے آتاتھا اَوراپنی دعاوی کواقبال کے کلام بلاغت نظام سے مزین کر کے اَور کانگرس پرطنز ومزاح سے چٹ پٹا کر کے اپنی تقریروں میں بیان کر دیا کرتاتھا۔ اَور جب کبھی میرا ذہن مجھ سے کہتاتھا کہ جو کچھ تو کہتاہے اِس پر تیرے پاس دلیل کیا ہے تو میں اُسے یہ کہہ کرمطمئن کر دیا کرتا تھا کہ بھلالیگ ہائی کمان کے سربرآور دہ اَرکان جو قدُوة القوم ہی نہیں بلکہ زہدة القوم بھی ہیں، جھوٹ بول سکتے ہیں یا اپنی بھولی بھالی اَور نوے فیصد جاہل قوم کو دھوکادے سکتے ہیں؟ چونکہ یہ اَمر ممکن الوقوع نہیں اِس لیے منطقی اعتبار سے اِس کا عکس صحیح ہوگا یعنی یہ لو گ جو کچھ کہتے ہیں وہ بالکل سچ ہے۔ ظاہرہے کہ یہ برہان نہیں ہے بلکہ سفسط اَورمغالطہ ہے جو میں اُس زمانے میں اپنے نفس کودیا کرتا تھا لیکن جماعتی تعصب اِنسان کو ایسا اَندھا کردیتا ہے کہ وہ حسن اَور قبیح میں اِمتیاز نہیں کر سکتا یعنی وہ سفسط کو برہان اَور مغالطے کو دلیل سمجھنے لگتا ہے۔ چنانچہ میں نے یہ غیر معقول بات کہہ کر قاضی صاحب مرحوم سے اپنا پیچھا چھڑا لیا کہ جس طرح اُنہیں (حضرت اَقدس کو ) یہ یقین ہے کہ پاکستان میں اِسلامی حکومت ہر گز قائم نہیں ہو گی اِسی طرح مجھے یہ یقین ہے کہ ضرور قائم ہو گی اِس لیے گفتگو بے کار ہے اَور ملاقات ١ بے سود ۔ ١ کس کا قیاس صحیح نکلا اَورکس کا غلط؟ اِس کا کچھ اَندازہ ''نوائے وقت'' لاہور مؤرخہ ٦ جون ١٩٦٨ء کے لیڈر (اداریے) کے اِس جملے سے بخوبی ہو سکتا ہے : ''پاکستان میں اگر شروع سے اِسلامی نظریات و شعائر، اِسلامی ضابطہ ٔ حیات اَور اِسلام کے نظام ِمالیات وقانون کو اِختیار کرنے کی کوشش کی جاتی توآج حالات یقینا مختلف ہوتے اَور کسی کو یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی کہ ملک کے تمام دولت آفریں وسائل پراَور تمام تر دَولت پر مٹھی بھراَفراد کا قبضہ ہے۔ '' اِس معصوم تمنا کے جواب میں نصیر دہلوی کا یہ شعر مدیرِ نوائے وقت کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے خیالِ زُلف میں شب بھر نصیر پیٹا کر گیا ہے سانپ نکل اَب لکیر پیٹا کر