ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2010 |
اكستان |
|
باب اَوّل اعترافِ جرم وگناہ و خطاء و اِستغفار اَز خالق اَرض و سمائ فصلِ اَوّل : اِنسانی فطرت ہے کہ اُسے اختلافِ رائے برداشت کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے اَور عمومًا ایسا ہوتا ہے کہ اپنے مخالف کوزِک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں رکھی جاتی۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تویہ واضح ہوجائے گا کہ جن لوگوں نے سلاطینِ وقت سے اِختلاف کیا تو اِختلاف کرنے والوں کواُنہوں نے طاقت کے نشے میں مست ہوکر یا قتل کردیا یا محبوس۔ اَور جنہوں نے علمائِ سوء سے اِختلاف کیا تو اُنہیں علماء ِسوء نے دائرہ اِسلام سے خارج کردیا، چند مثالیں درج کرتا ہوں۔ (١) امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے بادشاہِ وقت سے اِختلاف کیاتو اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تو اُنہوں نے قید خانہ میں وفات پائی۔ (٢) امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ (المتوفی ٢٤١ھ) نے مسئلہ خلقِ قرآن میں مامون سے اِختلاف کیا تو اُس نے اِن کو بے دریغ اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنایا۔ (٣) امام بخاری رحمة اللہ علیہ کو والی ٔبخارا نے جِلا وطن کرڈالا۔ (٤) ٤٥٠ھ میںاَشاعرہ پرحکومت کی طرف سے مصائب کا نزول ہوا اَور ابن حزم ظاہری (المتوفی ٤٥٦ئ) نے اِ نہیں گمراہ قرار دیا۔ (٥) امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ(المتوفی ٧٢٨ھ) کو علماء نے کافر قرار دیا۔ (٦) محمد عبدالوہاب نجدی (المتوفی ١٢٠١ھ) نے اپنے مخالفوں کو کافرقرار دیا۔ (٧) ہمارے زمانہ میں بریلی کے ایک بزرگ نے بیک جنبش ِ قلم تمام علماء ِدیوبند کو دائرہ اِسلام سے خارج کر دیا کیونکہ یہ حضرات مشرکانہ عقائد اَور مبتدعانہ اعمال میں خان صاحب سے متفق نہیں تھے۔ پہلے یہ متعصبانہ اَور ظالمانہ روِش اَور تنگ نظری صرف عقائد تک محدود رہا کر تی تھی مگر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ یہ بیماری سیاست کی دُنیا میں بھی داخل ہوگئی۔ جن لوگوں نے ١٩٣٢ء سے ١٩٤٧ء تک کاپُرآشوب دَور دیکھا ہے اُن سے یہ حقیقت مخفی نہیں ہے کہ حامیانِ مسلم لیگ اُن تمام مسلمانوں کے اِسلام کو شک اَور شبہ کی