ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2010 |
اكستان |
گا۔ قسم بخدا! آپ صلہ رحمی فرماتے ہیں، سچ بولتے ہیں، مصیبت زَدہ کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، لاچاروں کو کما کردیتے ہیں، مہمان نوازی فرماتے ہیں اور حادثات وغیرہ میں متاثرین کی مدد فرماتے ہیں۔'' الغرض مصیبت زدگان اَور پریشان حال لوگوں کا تعاون ایک اِسلامی فریضہ اَور اِنسانیت نوازی کا عظیم مظاہرہ ہے جس کی اِسلام نے تلقین کی ہے۔ غلاموں اَور ملازموں کے ساتھ حسنِ سلوک : اِسلام سے پہلے غلاموں کے ساتھ بد ترین مظالم رَوا رکھے جاتے تھے اَوراِنسانیت کے ناطے وہ ہر منصفانہ حق سے پوری طرح محروم تھے اَوراِنسانی اعتبا ر سے اُنہیں ایک آزاد شخص کے برابر ہونے کا تصور بھی نہیںکیا جا سکتا تھا۔ اِسلام نے اپنی اعلیٰ اِنسانیت نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے غلاموںکے جائز حقوق کو دِلانے کی جدوجہد کی۔قرآن کریم میںاِن کے ساتھ حسن سلوک کاحکم دیاگیا۔ اَوررسول اللہ انے اِرشاد فرمایا کہ یہ غلام تمہارے بھائی اَورتمہارے معاون ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے قبضے میں دے دیا ہے لہٰذا جب کسی کے قبضے میںاُس کا بھائی آئے(یعنی کوئی شخص غلام کامالک بنے)تو اپنے کھانے ہی میں سے اُسے کھلائے اَوراپنے لباس میںسے اُسے پہنائے اورتم اُن سے اِتنا بھاری کام نہ لو جو اُن کے بس میں نہ ہو اور اگر ایسا کام لینا ہی ہو تو تم خود اُن کی مدد کرو۔ (بخاری شریف ١/٩) اَورایک روایت میں آپ انے اِرشاد فرمایاکہ جو شخص اپنے غلام کے چہرے یابدن پر مارے تو اُس کی تلافی کی شکل یہ ہے کہ اُس کو آزاد کردے ۔(مسلم شریف ٢/٥١،ابوداؤد شریف ٢/٧٠٢) آنحضرت ا کو غلاموں کے حقوق کا کس قدر خیال تھا اِس کا اَندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اِنتقال سے قبل آپ نے آخری تاکید نماز پڑھنے اَور غلاموں کی رعایت رکھنے کی کی ہے۔ (ابو داؤد ٢/٧٠١) آج دُنیا میں نوکروں اَور ملازموں کے ساتھ کتنی حق تلفیاں کی جاتی ہیں اَور کس طرح اُن کے حقوق غصب کیے جاتے ہیں اَور کیسی کیسی اَذیتوںسے اُنھیں دوچار ہونا پڑتاہے وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ اِسلام نے ہر فرد کے دِل میںاِس بات کا ڈر پیدا کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے ماتحت پر زیادتی کرے گا تو اُس کو اُس کا بدلہ آخرت میں دینا ہوگا۔