ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2010 |
اكستان |
|
کی وجہ (اَورحکمت) معلوم ہوتی ہے۔اِس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح گناہ کے کام کرنے میں مفاسد ہیں اِسی طرح طاعات میں شریعت سے آگے بڑھنے میں بھی مفاسد ہیں۔ ( دعوات ِعبدیت) بچوں کو روزہ رَکھانے کے متعلق کوتاہی : بعض لوگ خودتو روزہ رکھتے ہیں لیکن بچوں سے اُن کے روزہ رکھنے کے قابل ہونے کے باوجود اُن سے روزہ رَکھانے کی پرواہ نہیں کرتے۔ اَور بعض لوگ اِن کے نابالغ ہونے کو دلیل سمجھتے ہیں۔ لیکن خوب سمجھ لیا جائے کہ بالغ نہ ہونے سے بچوں پر واجب نہ ہونا تو لازم آیا ہے لیکن اِس سے یہ معلوم نہیں آیا کہ بچوں کے اَولیاء (سرپرست)پر بھی اِن سے روزہ رَکھوانا واجب نہ ہو۔جس طرح نماز کے لیے بالغ نہ ہونے کے باوجود اِن کو نماز کی تاکید کرنا بلکہ مارنا ضروری ہے اِسی طرح روزہ کے لیے بھی حکم ہے۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ نماز میں (سات برس) عمر کی قید ہے اَورروزہ میں قوتِ برداشت پر مدار ہے (یعنی جب روزہ کی تکلیف برداشت کرنے کی قابلیت و طاقت آجائے تو روزہ رَکھوانا واجب ہے)۔ اَور وَجہ اِس کی یہ ہے کہ ایک دم سے کسی کام کا پابند ہونا دُشوار ہوتا ہے اگر بالغ ہونے کے بعد ہی تمام احکام شروع ہوں تو اُس پر ایک دم سے بار پڑجائے گا اِس لیے شریعت نے پہلے ہی آہستہ آہستہ اَعمال کا عادی بنانے کا قانون مقرر کیا تاکہ بالغ ہونے کے بعد دُشواری نہ ہو۔ اِس قانون کی تنفیذ (یعنی اِس پر عمل کرانا) سرپرستوں پر لازم کیا گیا اگر سر پرستوں پر یہ واجب نہ ہو تو اِس قانون کا کوئی فائدہ ہی نہ ہوگا۔ بہت چھوٹے بچوں کے روزہ رَکھانے میں ظلم و زیادتی : بعض لوگوں کو بہت چھوٹے کم سمجھ ناتواں بچہ کو روزہ رکھانے کا شوق ہوتا ہے کچھ تو خود اِس روزہ رَکھانے کا فخر ہوتا ہے اَور کچھ روزہ کشائی میں حوصلہ نکالنے یعنی بچہ کے افطار کی خوشی میں دعوت کرنے کا اَرمان ہوتا ہے۔ اَوّل تو اِس کی بنیاد ہی فاسد ہے اَور پھر اِس میں ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں (مثلاً ریاکاری، شہرت وغیرہ) کہ گناہ میں اِضافہ ہوتا ہے۔ عبرت ناک واقعہ : مجھ کو ایک جگہ کا قصہ معلوم ہے کہ اِسی طرح ایک بچہ کو روزہ رکھوایا (باقی صفحہ ٤١ )