ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2010 |
اكستان |
|
بدتہذیبی پر صدائے احتجاج بلندکی تو ڈان نے بڑے فخر کے ساتھ یہ لکھا تھا کہ ''گلدستوں کے بجائے اُن لوگوں کے حصے میں اِینٹ پتھر ہی آئیں گے۔'' میرا مطلب اِس تلخ نوائی سے صرف اِس قدرہے کہ اُس زمانے میں ذہنیت ہی اِس قسم کی ہوگئی تھی کہ ہم نے حفظ ِ مراتب کو بالائے طاق رکھ دیا تھا اَور یہ راقم سیہ کار بھی اِسی کشتی میں سوار اَور اِسی غلطی کا شکار تھا یعنی میں بھی یہی سمجھتا تھاکہ جو مسلمان لیگ میں نہیں ہے وہ مسلمانوںکا خیر خواہ نہیں ہے ۔اِس کانتیجہ یہ نکلا کہ جو علماء لیگ میں نہیں تھے اُن کی عظمت، و قعت، عزت اَور منزلت میرے دِل سے بالکل نکل گئی تھی حالانکہ اَب بیس سال کے بعد جب اِس حماقت پرغور کرتاہوں تو عرقِ ندامت میں غرق ہو جاتاہوں مثلاً صرف ایک واقعہ ذیل میں درج کرتاہوں : ''اَپریل ١٩٤١ء میں مجھے اَنجمن تبلیغ الاسلام چونڈہ ضلع سیالکوٹ کے سالانہ جلسے میں تقریرکی دعوت موصول ہوئی چونکہ یہ اَنجمن غیر سیاسی تھی اِس لیے اِس کے جلسوں میں لیگی اَور غیر لیگی ہر مکتب ِخیال کے مقررین مدعو کیے جاتے تھے چنانچہ دیوبند سے حضرت مدنی اَور شجاع آباد سے قاضی احسان احمد مرحوم بھی تشریف لائے تھے۔ اُس زمانے میں میری ذہنی کیفیت یہ تھی کہ میں غیر سیاسی جلسوں میں بھی ایسا موضوع اختیار کیا کرتا تھا جس کی تان بالآخر سیاست پر ٹوٹ سکے تاکہ میں لیگ کاپرو پیگنڈا کرسکوں ١ چنانچہ یہاں بھی یہی کیا۔ جلسہ ختم ہوجانے کے بعد میرے دوست قاضی احسان احمد مرحوم میرے کمرے میں تشریف لائے اَور کہنے لگے کہ حضرت مولانا حسین احمدصاحب مدنی جو آپ کی تقریر کے وقت سٹیج پر تشریف فرما تھے، آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ نیزیہ فرمایا ہے کہ اگر آپ میرے پاس چل کر آنا پسند نہ کریں تو میں خود آپ سے ملنے آسکتا ہوں۔ ١ مثلاً اَنجمن مدرسة البنات جالندھر ایک غیر سیاسی ا نجمن تھی مگر میںنے ١٩٣٤ء سے ١٩٤٣ء تک ہر سال اِس اَنجمن کے پلیٹ فارم سے لیگ ہی کا پرو پیگنڈہ کیا، جس کی یاد اُس زمانے کے سامعین کے دِلوں سے اَبھی تک محو نہیں ہوئی ہے۔