ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2010 |
اكستان |
(١) جب وہ ٹرین جس میں لیگ کے مخالف مسلمان قائدین سفر کر رہے تھے علی گڑھ پہنچی تویونیورسٹی کے مسلمان طلباء نے اُن کے کمپار ٹمنٹ کے سامنے کھڑے ہو کر ایسی نازَیبا اَورخلاف ِ تہذیب حرکات کیں جن کی وضاحت بذات ِ خود خلاف ِ تہذیب ہے اَور اگر وضاحت بھی کی جائے تو کوئی شخص یقین نہیں کرے گا کہ کوئی شریف آدمی اِن حرکات کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ (٢) جب حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی سید پور ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو حامیانِ لیگ کا ایک اَنبوہِ کثیرپلیٹ فارم پرجمع ہوگیا۔اُن لوگوں نے حضرت اَقدس کو گالیاں دیں اَور جب حضرت موصوف پلیٹ فارم پراُترے تومخالفین نے حضرت کو زمین پرگرانے کی کوشش کی اَور گریبان پھاڑ دیا اَور ایک شخص نے عمامہ سر سے اُتار لیا اَور پہلے اُسے پاؤں سے رَوندا پھر نذر ِ آتش کر دیا۔(حیات ِ شیخ الا سلام ص ٢٣٢ تا ٢٣٤ ) میں نے دِل پر جبر کر کے صرف دو واقعات درج کردیے ہیں۔ تفصیل سے عمدًا اِجتناب کیا ہے۔ مقصد صرف یہ دِکھاناہے کہ اُس زمانہ میں حامیانِ لیگ کی ذہنیت ایسی ہو گئی تھی کہ جو شخص اُن سے سیاسی اعتبار سے اِختلاف کرتا تھااُس کے ساتھ ہر بدسلوکی اَور بے اَدبی رَوا رَکھی جاتی تھی بلکہ اُسے کار ِثواب سمجھاجاتا تھا۔ آج جب بیس سال کے بعد ایک طرف ہمار ے جوش اَور ہیجان میں سکون کا رنگ پیدا ہو گیا ہے اَور دُوسری طرف زندگی کے تلخ تر حقائق نے ہماری آنکھیں بھی کھول دی ہیں تو ہم پرانے مسلم لیگی اُن لوگوں کو رَواداری کا اَپدیش دے رہے ہیں جو اپنے سیاسی مخالفوں کودائرہ اِسلام سے خارج سمجھتے ہیں مثلاً پاکستان کے نامور صحافی میم شین نے (جسے میں اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز رکھتا ہوں) اپنے ایک مضمون میں جو نوائے وقت مورخہ ١٤ نومبر ١٩٦٧ء میں شائع ہوا تھامسلمانانِ پاکستان کو یہ مشورہ دیا تھا : ''لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم صہیونیت کے پروپیگنڈے کے زیر ا َثر نہیں (جمال عبدالناصر صدر جمہوریہ مصر) فرعون کی نسل کا علمبردار اَور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا نقاد بنا کر اپنے لوگوں کے سامنے پیش کرناجاری رکھیں۔ صدر ناصر عقائد کے لحاظ سے پکے اَورسچے مسلمان ہیں اَور ہمیں مسلمانوں کو مسلمان ہی رہنے دینا چاہیے۔''