ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2010 |
اكستان |
|
حضر ت مولانا حسین اَحمد صاحب مدنی قدس سرہ ُالعزیز کا علمی اَخلاقی اَور رُوحانی مقام خان مرحوم کی نگاہوں سے اَوجھل ہوگیا تھا۔ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ جن لوگوں نے لیگ سے اِختلاف کیا تھا خصوصًا اَرکانِ جمعیت علماء ِہند اُن کی نیت نیک تھی، وہ ہرگز ضمیر فروش یا غدارِ قوم یا ہندوؤں کے زَرخرید نہیں تھے، چنانچہ عزت مآب صدر مملکت پاکستان بالقابہ ١ نے بھی اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''Friends not Masters '' میں اِس بات کا اعتراف کیا ہے، چنانچہ صفحہ ٢٠٠ پرلکھتے ہیں : ''سب لوگ جانتے ہیں کہ بہت سے علماء نے قائد اعظم سے علی الاعلان اِختلاف کیا تھا اَور پاکستان کے تصور کی تردیدکی تھی لیکن میرے اِس قول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جن علماء نے تشکیل ِپاکستان کی مخالفت کی تھی وہ سب ضمیر فروش تھے، اُن میں قابل اَور مخلص لوگ بھی تھے۔ ہاں بعض لوگ اَیسے بھی تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کی تشکیل سے اِن کا اِقتدار ختم ہوجائے گا۔'' ٢ فی الجملہ حقیقت یہی ہے کہ جمعیة علماء کے اَرکان نہ قوم کے بدخواہ تھے نہ ضمیر فروش بلکہ وہ علیٰ وجہ البصیرت یہ سمجھتے تھے کہ نہ تو تقسیمِ ہند سے ہندی مسلمانوں کا مسئلہ حل ہوسکے گاکیونکہ اُن کی ٣/١ آبادی ہندوستان میں ہندوؤں کے رحم وکرم پررہ جائے گی اَور وہ اُنہیں اپنے اِنتقام کا نشانہ بنائیں گے اَور نہ پاکستان میں اِسلامی حکو مت قائم ہو سکے گی کیونکہ لیگ کے اَربابِ حل و عقد کی غالب اکثریت نہ دین سے واقف ہے اَور نہ اُن کی زندگی اِسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ لیکن حامیانِ لیگ نے مخالفت کے جوش میں اِسلامی تہذیب اَور علماء ِ دین کے احترام دونوں باتوں کو طاق پر رکھ دیا اَور اِختلاف کر نے والوں کے ساتھ ہرقسم کی بدسلوکی رَوا رکھی بلکہ اِس پر فخر کیا۔ ذیل میں اِس کی دومثالیں درج کرتا ہوں : ١ مراد ہیں سابق صدر پاکستان فیلڈر ماشل محمد اَیوب خان صاحب، واضح رہے کہ یہ تحریر آج سے کئی سال قبل کی ہے۔(سلیم چشتی) ٢ عزت مآب صاحب ِ صدر بالقابہ کے اِس خیال سے مجھے کلیةً اِتفاق نہیں ہے۔(سلیم چشتی)