ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2010 |
اكستان |
|
نگاہ سے دیکھتے تھے جو اُن سے دلائلِ واضحہ اَور براہین ِ نیرہ کی بناء پراِختلاف کرتے تھے۔ نیز بِلااِستثنا اُن تمام مسلمانوں کو غدارِ قوم، ضمیر فروش اَور ہندوؤں کے زرخرید کہا کر تے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی (جب ہوش رُخصت ہوجاتا ہے اَور صرف جوش کار فرما ہوتا ہے تو ہمیشہ یہی ہوتاہے) کہ مسلم لیگ کوکفرواِسلام کا معیار بنا لیا گیا تھا چنانچہ ہرشخص ببانگ ِ دبل یہ اعلان کیا کرتا تھا کہ ''مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ'' حالانکہ کفر واِسلام کا معیارکسی سیاسی جماعت میں شرکت نہیں ہے بلکہ اتباعِ شریعت ِمحمدی علی صابہا الصلوة والتسلیم ہے اَور طرفہ تماشہ یہ ہے جس پر آج میری عقل بھی حیران ہے کہ مسلم لیگ تو وہ جماعت تھی جس میں داخلے کے لیے نہ مسلمانوں کی سی صورت شرط تھی نہ اُن کی سی سیرت، نہ نمازروزے کی پابند ی شرط تھی نہ دین سے واقفیت ،اہلِ قرآن، اہلِ حدیث، اہلِ فقہ اَور اہلِ تصوف، بریلوی اَور دیو بندی، سنی اَور شیعہ، احمدی اَور کمیونسٹ سب اِس کے رُکن بن سکتے تھے اَور ١٩٣١ء میں اِس کا صدر وہ شخص تھا جس کے ہم خیالوں کو اِسلام سے خارج قرار دینے کے لیے ١٩٥٣ء میں کراچی سے لاہور تک زبردست ہنگامہ برپا ہوا تھا۔ مختصر یہ کہ اُس زمانے میں ہم لوگ یہ سمجھتے تھے کہ جو مسلمان مسلم لیگ میں شامل نہیں ہے وہ مسلمان کا خیر خواہ نہیں ہے خواہ کتنا ہی بڑا عالم ِ دین کیوں نہ ہو۔ یہ تصور کہ جو مسلمان لیگ میں نہیں ہے وہ ہندوؤں کا غلام ہے، ضمیر فروش ہے، غدارِ قوم ہے، عوام کاتو ذکر ہی کیا ہے، خواص کے دماغوں پر بھی مسلط ہو چکا تھاچنانچہ وہی مولانا ظفر علی خاں جنہوں نے حضرت ِاَقدس مولانا مدنی کی شان میں یہ شعر کہا تھا۔ گرمیِ ہنگامہ تیری آج حسین احمد سے ہے جس سے ہے پرچم روایاتِ سلف کا سربلند جب مسلم لیگ میں شامل ہوئے تواُن کی ذہنی پستی کا یہ عالم ہوگیا کہ اُنہوں نے اُسی حسین احمدسے یوں خطاب کیااَور ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ میں کس عظیم المرتبت ہستی کومخاطب بنا رہا ہوں حسین احمد سے کہتے ہیں مدینے کے خزف ریزے کہ لٹو ہو گئے کیا آپ بھی سنگم کے موتی پر اِس شعرسے یہ بات روز ِروشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاسی اِختلاف کی وجہ سے شیخ الاسلام مجاہد اعظم