ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2010 |
اكستان |
|
کہتا ہوں کہ اُن حضرات کاقول بہ سر و چشم، حضرت شیخ الاسلام بھی اِس حدیث کا مصداق ہیں اَور یہ حقیقت ہے محض عقیدت نہیں کہ حدیث لَوْ کَانَ الدِّیْنُ عِنْدَ الثُّرَیَّا کا اَوّلاً مصداق سلمان فارسی اَور ثانیاً حضرت امام ابوحنیفہ ہیں تو اِس مفہوم کلی میں اَور دیگر اَفراد بھی داخل ہو سکتے ہیں۔اِسی طرح اگرہم اِس حدیث کا مصداق حضرت شیخ الاسلام کو قرار دیں توہمارے نزدیک مضائقہ نہیں ہے اِس وجہ سے ہمارے نزدیک الفرقان کی تنقید قابلِ اعتناء نہیں ہے بلکہ وہ تنقید سطحی ہے۔ وَیُذْکَرُ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اَنَّہ مَرَّ یَوْمًا فِی السُّوْقِ عَلَی الْمُشْتَغلیْنَ بِتِجَارَاتِھِمْ فَقَالَ اَنْتُمْ ھٰھُنَا وَمِیْرَاثُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ یُقْسَمُ فِی الْمَسْجِدِ فَقَامُوْا سَرَاعًا فَلَمْ یَجِدُوْا فِیْہِ اِلَّا الْقُرْاٰنَ اَوِالذِّکْرَ اَوْ مَجَالِسَ الْعِلْمِ فَقَالَ اَیْنَ مَاقُلْتَ یَااَبَاھُرْیَرْةَ فَقَالَ ھٰذَا مِیْرَاثُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ یُقْسَمُ بَیْنَ وَرَثَتِہ وَلَیْسَ مَوَارِیْثُہ دُنْیَاکُمْ ۔ ''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ ایک دِن بازار میں تاجروں کے قریب ہوکر گزرے جو اپنے کاروبارمیں مشغول تھے اَور فرمایاکہ تم یہاں ہواَور مسجد میں حضور ۖ کی میراث تقسیم ہو رہی ہے چنانچہ سب دوڑے ہوئے آئے اَورمسجدمیں سوائے قرآن یا ذکراَور مجالسِ علم کے کچھ نہ پایا۔ تو کہا اے ابوہریرہ جس چیز کو تم نے کہا تھاوہ کہاں ہے؟ تب ابوہریرہ نے فرمایایہی تو حضور ۖ کی میراث ہے جواُن کے وارِثوں کے درمیان تقسیم ہو رہی ہے حضور ۖ کی میراث تمہاری دُنیا نہیں ہے۔'' چنانچہ حضرت شیخ الاسلام مسجد نبوی اَور دارُالعلوم دیوبند میں علم و عرفان کی ایک عرصہ تک بارش برساتے رہے۔ اَطرف و اَکناف ِعالم سے علوم و عرفان کے پیاسے آتے تھے اَور مدنی سمندرسے سیراب ہو کر جاتے تھے۔ حضرت کاتجر علمی کسی شہادت کا محتاج نہیں ہے آپ کی قابلیت اَور کمالِ علمی کَالشَّمْسِ فِیْ نِصْفِ النَّہَارِ کا صحیح مصداق ہے، علاو ہ درسِ نظامی کے وہ کتابیں برسوں حرم نبوی میں آپ نے پڑھائی ہیں جن کے نام بھی بہت سے علماء نہیں جانتے ،ہرفن کی چھوٹی سی چھوٹی اَوربڑی سی بڑی کتاب آپ کو بخوبی یاد تھی۔ چنانچہ ایک طالب علم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میزان الصرف کی مندرجہ ذیل عبارت پڑھ کر سنادی :