ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2010 |
اكستان |
|
کام صرف اِتنا ہوتا ہے کہ جس پر اِلزام ہے اُس کو پکڑ کر قانون کے حوالے کرے اَور اپنی طرف سے اُس کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ کرے جبکہ ہمارے ملک کے کالے قوانین میں پولیس ایک بدمست ہاتھی ہے جو کالے قانون کی سیاہ چھتری تلے جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی کسی بھی شریف شہری کی عزت اُس کے عزیز و اَقارب اَور اہل ِ محلہ کے سامنے پامال کرتی پھرے اُسے لاتیں گھونسے رسید کرے گندی غلیظ گالیوں سے نوازے جبکہ بعد میں جرم ثابت ہونے پر عدالت اگر اُس کو کسی سزا کا مستحق قرار بھی دے تویہ سزاء بسا اَوقات پولیس کے ہاتھوں ملنے والی سزا اَور رُسوائی کے مقابلہ میں بہت کم ہوتی ہے اَور کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ عدالت بعد اَزاں ملزم کو باعزت بری کردیتی ہے لیکن اِس بے قصور کی بلاوجہ سرِ عام پولیس جو تذلیل کر چکی ہوتی ہے اِسکی کوئی تلافی نہیں کی جا تی اَور نہ ہی پولیس کے خلاف حد سے تجاوز کرنے پر کوئی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ بندہ نے زندگی میں پہلی بار اسلام کے اِس عادلانہ اصول کا عملی مظاہرہ دیکھا کہ پولیس ملزم کی طرف سے سرتوڑ مزاحمت کے باوجود صرف اِتنی کارروائی کر رہی تھی جس سے اُس کی مزاحمت ٹوٹ جائے اَور پولیس کی حراست میں آجائے ۔ ہمارے ملک کے کالے قوانین پانچ ہزار میل دُور سے آنے والے غاصب فرنگیوں کے بنائے ہوئے ہیں جو ہم ہندوستانیوں کو اپنا غلام تصور کرتے تھے لہٰذا مسلمانوں کی بادشاہت کو ختم کرنے کے بعد ہمارے عدالتی نظام کی جگہ اپنا ظالمانہ عدالتی نظام قائم کر گئے تاکہ اِختلافات کا تصفیہ ہونے ہی نہ پائے اَور نسل درنسل طول پکڑتا چلا جائے تاکہ ہم مسلمانوں کی تمام توانائیاں اِن جھگڑوں ہی میں صرف ہوتی رہیں اَور ہمیں کبھی ترقی نصیب نہ ہو ستم بالائے ستم کہ انگریز تو چلا گیا مگر مسلمانوں ہی کے اَندر اپنے ایسے وفادار دَغا بازوں کو چھوڑ گیا جو'' کالے کوٹ'' کو'' مقدس کوٹ'' کا عنوان دے کر فعل ِ کفر کا اِرتکاب کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِس قوم کو شعور دے تاکہ کافروں کے بنائے ہوئے کالے قوا نین کو مسترد کر کے اِسلام کے عادلانہ نظام کو اپنا کر دُنیا و آخرت کی کامیابیوں کوحاصل کرے۔