ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2010 |
اكستان |
|
دَانشمندی : حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بڑی دَانشمند اَور سمجھدار تھیں۔ الا صابہ میں لکھا ہے : وَکَانَتْ اُمُّ سَلَمَةَ مَوْصُوْفَةً بِا لْجَمَالِ الْبَارِعِ وَالْعَقْلِ الْبَالِغِ۔ ''حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بہت زیادہ حسین تھیں، عقلمندی اَور صحیح رائے رکھنے والوں میں شمار تھا۔'' صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت ۖ کو بڑی اُلجھن پیش آئی تھی جو حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے سلجھائی۔ واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ۖ ٦ھ میں اپنے صحابہ کرام کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کے لیے روانہ ہوئے، مشرکینِ مکہ کو اِس کی خبر ہوئی تو اُنہوں نے مزاحمت کی اَور آپ کو مقام ِ حدیبیہ میں رُکنا پڑا۔ جانثار صحابہ چونکہ آنحضرت ۖ پر جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے اِس لیے اِس موقع پر بھی جنگ کے لیے آمادہ ہوگئے مگر آپ ۖ نے لڑائی کے بجائے صلح کرنا پسند کیااَور باوجود یکہ حضرات صحابہ لڑائی کے لیے مستعد تھے آنحضرت ۖ نے اِس قدر رعایت کے ساتھ صلح کرنا منظور فرمالیا کہ مشرکینِ مکہ کی ہر شرط قبول فرمائی (جس میں بظاہر مشرکین کا نفع اَور مسلمانوں کا صریح نقصان معلوم ہوتا تھا) جب صلح نامہ مرتب ہوگیا تو سیّد ِ عالم ۖ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ (اَب عمرہ کے لیے مکہ معظمہ جانا نہیں ہے اَب تو واپسی ہی ہے کیونکہ صلح کی شرائط میں یہ بھی منظور کر لیا تھا کہ آپ عمرہ اِس سال نہیں کریں گے آئندہ سال عمرہ کے لیے تشریف لائیں گے لہٰذا ) اُٹھو(اپنا اپنا احرام کھول دو) قربانی کے جانور ذبح کردو پھر سر منڈ والو( چونکہ احرام کھولنے کو طبیعتیں گوارانہیں کر رہی تھیں اَور مدینہ سے عمرہ کے لیے آئے تھے اِس لیے عمرہ ہی کو جی چاہ رہا تھا اَور احرام کھولنے سے اپنے سفر کا ضائع ہونانظر آتا تھا لہٰذا آپ ۖ کے فرمانے پر کوئی بھی نہ اُٹھا) حتی کہ آپ ۖ نے تین مرتبہ حکم دیا۔ جب کسی نے بھی آپ ۖ کے اِرشاد پر عمل نہ کیا تو آپ ۖ اُم ِ سلمہ کے پاس تشریف لے گئے اَور اُن سے فرمایا کہ لوگ کہا نہیں مان رہے ہیں حضرت اُم سلمہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے نبی کیا آپ یہ چاہتے ہیں سب احرام کھول دیں؟ اگر واقعةً آپ کی ایسی خواہش ہے تو اِس کی ترکیب یہ ہے کہ آپ باہر نکل کر کسی سے نہ بولیں اَور اپنے جانور کو ذبح فرمادیں اَور بال موندنے والے کو بُلا کر اپنے بال منڈ والیں ۔