ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2010 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( قسم کھانے کا بیان ) ( ١) قسم کھانے والا عاقل، بالغ، مسلمان ہو لہٰذا دیوانے کی اَوربچے کی اگرچہ سمجھدار ہو اَور کافر کی قسم صحیح نہیں ہوتی۔ (٢) قسم کھاکر اِس کے ساتھ ہی اِستثناء نہ کیا ہو مثلًا قسم کھاکر اِس کے ساتھ ہی اِنشاء اللہ کا لفظ کہہ دیا جیسے کوئی اِس طرح کہے خدا کی قسم فلاں کام اِنشاء اللہ نہ کروں گا تو قسم نہ ہوئی۔اِنشاء اللہ کی جگہ اگر مثلًا اِن الفاظ میں سے کوئی لفظ کہے تو اُس کا بھی یہی حکم ہے۔ ماشاء اللہ ،اگر اللہ چاہے، جو اللہ چاہے، اگر اللہ نے میری مدد کی، اِلّا یہ کہ میرا اِرادہ بدل جائے، الا یہ کہ میں دُوسرے کام کو زیادہ پسند کروں ،وغیرہ۔ مسئلہ : اِستثناء کا لفظ قسم کھانے کے کچھ وقفہ اَور فصل کے بعد کہا ہو تو قسم ہوجائے گی۔ (٣) قسم کے اِنعقاد اَور بقاء کے لیے یہ شرط ہے کہ قسم کا زمانہ مستقبل میں پورا ہونا عقلاً ممکن بھی ہو خواہ عادتًا ممکن ہو یا نہ ہو۔ اگر اِس کام کا پورا ہونا نہ عقلًا ممکن ہو نہ عادتًا ممکن ہو تو قسم منعقد اَور صحیح نہیں ہوتی مثلاً کہاخدا کی قسم میں آج اِس گلاس کا پانی ضرور پیوں گا جبکہ اِس گلاس میں پانی ہی نہ تھا یا پانی تو تھا لیکن وہ دِن ہی دِن میں خود بخودگرگیا یا جان بوجھ کر کسی نے گرادیا بلکہ خود قسم کھانے والے نے ہی گرادیا ہو تو دِن گزرنے پر قسم نہیں ٹوٹے گی کیونکہ پانی نہ ہونے یا پانی گرجانے کے بعد گلاس کا پانی پینا عقلاً اَور عادتًا دونوں طرح محال ہے اَور ممکن نہیں ہے۔ اَور اگر وہ کام عقلاً ممکن ہو عادتًا ممکن نہ ہو تو قسم صحیح ہے مثلاً کہا خدا کی قسم میں آسمان پر چڑھ جاؤں گا یا میں اِس پتھر کو سونے کا بنادُوں گا کیونکہ یہ عقلاً ممکن ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمان پر اُٹھائے گئے اَور حضرت محمد ۖ معراج کے موقع پر آسمانوں پر چڑھے تھے اَلبتہ چونکہ عادتًا اِس کام کو کرنا ممکن نہیں اِس لیے قسم فی الفور ٹوٹ جائے گی اَور کفارہ دینا ہوگا۔ مسئلہ : قسم کھائی کہ میں آج تمہارا قرض ضرور اَدا کروں گاحالانکہ نہ اپنے پاس رقم ہے اَور نہ ہی