ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2010 |
اكستان |
|
جاتی اَور اگر( اِسی حالت میں )مرجائے تو (سیدھا) جہنم میں جاتا ہے، اَور اگر توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اُس کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں ۔ اَور اگر وہ چوتھی مرتبہ پھرشراب کا نشہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوجاتا ہے کہ وہ اُسے قیامت کے دِن رَدْ غَةُ الْخَبَالْ پلائیں، صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ وہ کیا ہوتا ہے؟ حضور ۖ نے فرمایاجہنمیوں کے جسموں سے بہنے والا خون اَور پیپ۔ پیٹ میں لقمۂ حرام جانے سے چالیس دِن تک کوئی دُعاء قبول نہیں ہوتی : عَنْ عَبَّاسٍ قَالَ تُلِیَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَةُ عِنْدَ النَّبِیِّ ۖ یٰاَ یُّھَاالنَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلَالًا طَیِّبًا فَقَامَ سَعْدُ بْنُ اَبِیْ وَقَّاصٍ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُدْعُ اللّٰہَ اَنْ یَّجْعَلَنِیْ مُسْتَجَابَ الدَّعْوَةِ فَقَالَ یَاسَعْدُ اَطِبْ مَطْعَمَکَ تَکُنْ مُسْتَجَابَ الدَّعْوَةِ ، وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہ اِنَّ الرَّجُلَ لَیَقْذِفُ اللُّقْمَةَ الْحَرَامَ فِیْ جَوْفِہ مَا یُتَقَبَّلُ مِنْہُ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا وَاَیُّمَا عَبْدٍ نَبَتَ لَحْمُہ مِنَ السُّحْتِ وَالرِّبَا فَالنَّارُاَوْلٰی بِہ ۔(رواہ ابن مردویہ، تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر تحت قولہ تعالٰی یٰاَ یُّھَاالنَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلَالًا طَیِّبًا ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ۖ کی موجود گی میں یہ آیت تلاوت کی گئی یٰاَ یُّھَاالنَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلَالًا طَیِّبًا (اے لوگوں زمین میں جو حلال و طیب چیزیں ہیں وہ کھایا کرو ) اِس پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اَور عرض کرنے لگے، یارسول اللہ (ۖ) اللہ سے دُعاء کیجیے کہ وہ مجھے مستجاب الدعوات بنادے، حضور علیہ السلام نے فرمایا :سعد اپنا کھانا پاکیزہ (حلال کا) کر لو تم مستجاب الدعوات بن جاؤ گے، اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے جب آدمی اپنے پیٹ میں لقمۂ حرام ڈالتا ہے تو چالیس دِن تک اُس کی کوئی دُعا و عبادت قبول نہیں ہوتی اَور جس شخص کا گوشت (جسم) حرام اَور سود کھاکر بڑھا ہو اُس کے تو آگ ہی زیادہ لائق ہے۔