ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2010 |
اكستان |
|
کوئی قرض دینے والا ملتا ہے تو چونکہ ایسی حالت میں بھی اَدائیگی عقلاً ممکن ہے اَور عادتًا بھی محال نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی سے صدقہ زکوة ہی مل جائے یا خلاف ِ توقع کوئی قرض دینے پر آمادہ ہوجائے تو قسم صحیح بھی ہوگئی اَور فورًا نہیں ٹوٹے گی بلکہ دِن گزرنے کے بعد ٹوٹے گی۔ قسم کس طرح ہوتی ہے : (١) اللہ تعالیٰ کے ذاتی اَور صفاتی ناموں کے ساتھ مثلاً یوں کہا اللہ کی قسم، خدا کی قسم، رحمن کی قسم، رحیم کی قسم ،وغیرہ۔ (٢) اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ جبکہ اُن کا عرف و رواج ہو مثلاً خدا کی عزت و جلال کی قسم، خدا کی بزرگی اَور بڑائی کی قسم،وغیرہ ۔ مسئلہ : اگر یوں کہا کہ خدا گواہ ہے یا خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں یا خدا کو حاضر وناظر جان کر کہتا ہوں تو قسم ہوگئی۔ مسئلہ : اگر خدا کا نام نہیں لیا فقط اِتنا کہہ دیا میں قسم کھا تا ہوں کہ فلاں کام نہ کروں گا تو قسم ہوگئی۔ مسئلہ : قرآن کی قسم، کلام اللہ کی قسم، کلام ِ مجید کی قسم کھا کر کوئی بات کہی تو قسم ہوگئی۔ اَور اگر کلام ِ مجید کو ہاتھ میں لے کر یا اِس پر ہاتھ رکھ کر کوئی بات کہی لیکن قسم نہیں کھائی تو قسم نہیں ہوئی۔ مسئلہ : کہا مجھ پر اللہ کی قسم ہے تو قسم ہوگئی۔ مسئلہ : کہا لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ میں فلاں کام ضرور کروں گا اگر قسم کی نیت سے کہا ہوتو قسم ہوگئی۔ (٣) ہر وہ شے جس کی حرمت اَبدی ہے اَور کسی حال میں ساقط نہیں ہوتی جیسے کفر تو اِس کے حلال کرنے کو کسی شرط پر معلق کرنے سے قسم ہوجاتی ہے۔ مسئلہ : اگر فلاں کام کروں توبے اِیمان ہو کر مروں، مرتے وقت اِیمان نصیب نہ ہو، بے اِیمان ہوجاؤں یا اِس طرح کہا اگر فلاں کام کروں تو میں مسلمان نہیں تو قسم ہوگئی۔اِس کے خلاف کرنے سے کفارہ دینا پڑے گا اَور اِیمان نہ جائے گا لیکن اَیسی قسم ہرگز نہ کھانی چاہیے۔ مسئلہ : یوں کہا اگر میں فلاں کام کروں تو میں یہودی ہوں گا یا نصرانی ہوں گا یا اِسلام سے دُور ہوں گا تو قسم ہوگئی۔