ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2010 |
اكستان |
|
بات مجھے معلوم ہوئی تو میں نے رونے کا اِرادہ موقوف کردیا اَور نہ روئی۔ (جمع الفوائد اَز مسلم شریف) جب سیّد ِ عالم ۖ نے حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نکاح کا پیغام بھیجا تو اُنہوں نے عذر کردیا اور عرض کیا میرے بچے بھی ہیں (جن کی پرورش کا خیال کرنا ہے) اَور مجھ سے نکاح کرنے سے کچھ فائدہ بھی نہیں ہے کیونکہ عمر زیادہ ہوگئی ہے مجھ سے اَب اَولاد بھی پیدا نہ ہوگی اَور مزاج میں غیرت بھی بہت ہے (جس کی وجہ سے دُوسری سوکنوں کے ساتھ رہنا مشکل ہے) اَور میرا یہاں کوئی وَلی بھی نہیں ہے۔ اِس کے جواب میں آنحضرت ۖ نے فرمایا عمر کی بات تو یہ ہے کہ میری عمر تم سے زیادہ ہے اَور بچوں کا اللہ حافظ ہے۔ اُن کی پرورش میں تمہیں کوئی دُشواری نہیں ہوگی میں بھی اُن کا خیال کروں گا اَور اللہ سے دُعا کروں گا۔ تمہاری غیرت والی بات بھی جاتی رہے گی اَور تمہاراکوئی ولی میرے ساتھ رشتہ ہوجانے کو ناپسند نہیں کرے گا۔ چنانچہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راضی ہوگئیں اَور آنحضرت ۖ سے نکاح ہو گیا۔یہ نکاح میں شوال میں ہوا۔ (اُسد الغابہ، الاصابہ وغیرہ) نکاح ہوجانے کے بعد آنحضرت ۖ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کو اُسی حجرہ میں لے آئے جس میں حضرت زینب بنت ِ خزیمہ رہا کرتی تھیں۔ اُنہوں نے وہاں دیکھا کہ ایک مٹکے میں جو رکھے ہیں اَور ایک چکی اور ہانڈی بھی موجود ہے لہٰذا خود جو پیسے اَور چکنائی ڈال کر مالیدہ بنایا اَور پہلے ہی دِن آنحضرت ۖ کو مالیدہ کھلا یا جسے خود ہی بنایا تھا۔ (حکایات ِ صحابہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ جب آنحضرت ۖ نے اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو مجھے بہت رنج ہوا (کہ کہیں اَیسا نہ ہو کہ آپ ۖ کی توجہ اُن کی طرف مجھ سے زیادہ ہو جاوے) جس کی وجہ یہ تھی کہ خوبصورتی میں اُن کی شہرت تھی۔ میں نے ترکیب سے اُن کو دیکھا تو واقعتہً جتنی شہرت تھی اُس سے بھی بہت زیادہ حسین معلوم ہوئیں۔ میں نے اِس کا حفصہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا تو اُنہوں نے کہا کہ اِتنی حسین نہیںہیں جتنی شہرت ہے (اُن کے کہنے سے میری آنکھوں سے بھی اُن کا حسن گرگیا اَور پھر جو دیکھا تو حفصہ رضی اللہ عنہا کی بات ٹھیک معلوم ہوئی (الاصابہ) (یعنی حسین تو بہرحال تھیں ہمارے ماننے سے اُن کے حسن میں کمی نہ آئی اَلبتہ سوکنوں والی پر خاش نے اُن کے حسن کو حفصہ رضی اللہ عنہا کے کہنے سے آنکھوں سے گرادیا) ۔ ایسی باتیں بشریت کے تقاضوں سے دِل میں آجا یا کرتی ہیں ۔