ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2010 |
اكستان |
|
نے یہ لکھا ہے کہ لَمْ اَرٰہُ (میں نے اِس کی کہیں تصریح نہیں دیکھی) اَور شامی نے اِس کو کان پر قیاس کر کے جائز لکھا ہے یعنی چونکہ کان اَور ناک میں بظاہر کوئی فرق نہیں اَور کان کے متعلق نص ہے اِس لیے اِس کو بھی جائز کہا جائے گا لیکن ناک چھدوانا خلاف ِاَولیٰ ہے۔ (دعوات عبدیت مقالات ِحکمت ص ١٩/٢٩) کان ناک چھیدنے کا حکم : کان ناک چھیدنا جیسا کہ ہندوستان میں رائج ہے ثابت ہے یا نہیں؟ فرمایا : کان کی صرف لَو چھیدنا ثابت ہے اَور ناک چھیدنا ثابت نہیں۔ بلاق تو بہت ہی بُرا معلوم ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب نے پوچھا میں اپنی لڑکی کے ناک کان چھدواؤں یا نہیں؟ فرمایا جائز تو ہے اَور یہ بات بھی قابل ِ غور اَور قبول لحاظ ہے کہ بڑے ہوکر خود اُس کو یہ حسرت نہ ہو کہ میرے کان ناک کیوں نہ چھیدے گئے۔ (حسن العزیزص ٤/٣٠٥) چھوٹے بچوں کو چھیڑ چھاڑ کر نے کا حکم : لڑکوں کو چھیڑنے کے متعلق میں نے یہ سمجھا ہے کہ کبھی تو اُن کو واقعی (اِس چھیڑ چھاڑ سے قلبی) تکلیف ہوتی ہے تو ایسا چھیڑنا تو جائز نہیں (خواہ ماں باپ ہی کیوں نہ چھیڑیں) اَور کبھی تکلیف نہیں ہوتی اَور ناز سے تکلیف ظاہر کرتے ہیں اِس میں گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ (حسن العزیز ص ١/٧٠٧) اَولادکے واسطے دُعاء : ہم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سبق سیکھ لینا چاہیے کہ اُنہوں نے جہاں اپنی اَولاد کے لیے دُنیاوی نفع کی دُعا کی ہے۔ وَارْزُقْ اَھْلَہ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اَور روزی دے اِس کے رہنے والوں کو پھلوں کی قسم سے، اُن لوگوں میں سے جو ایمان لائے اللہ اَور قیامت کے دِن پر۔ وہاں اِس دِینی نفع کی بھی دُعا ہے رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ الآیة اے پرور دگار ہمارے بھیج اُن میں ایک رسول اُن ہی میں کا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جیسے دُنیا کے لیے دُعا کی ایسے ہی آخرت کے لیے بھی دُعا کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذُرّیت کے لیے جو دُعا کی اُس سے گویا ہم کو یہ سبق سکھلایا کہ اپنی اَولاد کے لیے دُنیا سے زیادہ اہتمام دین کا کرنا چاہیے ۔اَور اَولاد عام ہے اَولاد حقیقی ہو یا مذہبی بلکہ اَولادِ حقیقی بھی جب ہی