ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2009 |
اكستان |
|
ایک سبق آموز واقعہ ( حضرت مولانا امان اللہ صاحب ، اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ جدید ) جامعہ مدنیہ لاہورکے سابق اُستاذ الحدیث و الفقہ حضرت اقدس مولاناکریم اللہ خان صاحب کا ایک دلچسپ اَور سبق آموز واقعہ مجھے میرے والد حضرت مولانا کریم اللہ صاحب رحمہ اللہ عصر کے بعد چائے پینے کے دوران زمانہ طالب ِعلمی کاکوئی نہ کوئی واقعہ سناتے تھے۔ ایک دِن اُنہوں نے اپنا ایک واقعہ سنایا جس سے علم کی وقعت اور دارالعلوم دیو بند کی علمی شان عام طبقہ میں اُجاگر ہوتی ہے،وہ یہ کہ : ''درجہ سادسہ کی کتب پڑھنے کے لیے اپنے علاقے کے ایک مشہور عالم نے مجھے ١٣٥١ھ / ١٩٣٣ء میں لاہور کے مشہور مدرسہ '' جامعہ حزب الاحناف '' میں داخل کرایا، اُس وقت جامعہ مذکورہ میں مولانا ابو البرکات سید احمد شاہ صاحب اور اُن کے والد مولانا دیدار علی صاحب بھی پڑھاتے تھے۔ جامعہ مذکورہ میں نعتوں کا رواج پڑھائی کی نسبت زیادہ تھا شروع ہی کی جمعرات کا دِن آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چند تانگے آئے اور طلباء وعلماء اُس میں سوار ہوئے ،میں نے پوچھا یہ کس واسطے آئے ہیںاور کہاں جانا ہے؟ تو جواب ملا کہ یہاں ایک سیٹھ صاحب ہیں وہ جمعرات کو اپنے گھر طلباء سے ختم پڑھواتے ہیں جس کے لیے وہ تانگے بھیجتے ہیں چنانچہ مجھے بھی دُوسرے طلباء وعلماء کے ساتھ تانگے میں سوار کرکے سیٹھ صاحب کے گھر ختم پڑھنے کے لیے لے جایا گیا۔ وہاں پہنچ کر تھوڑا بہت پڑھنے کے بعد مختلف قسم کے کھانے آئے اور سب حضرات نے کھانا شروع کردیا جب سب نے کھا لیا تو سیٹھ صاحب نے کہا کہ'' اپنا اپنا پتیلہ نکالو'' ۔میں نے دِل میں کہا کہ ''پتیلہ نکالنے '' کا کیا مطلب؟ سیٹھ صاحب نے پوچھا کہ آپ کا برتن پتیلہ کہا ں ہے؟ میں نے کہا کہ میرے پاس تو پتیلہ نہیں ہے۔ سیٹھ صاحب میری اِس بات سے سمجھ گئے کہ یہ نیا طالب علم ہے۔ اُس وقت سیٹھ