ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2009 |
اكستان |
|
تو وہ بھی ٹھیک ہے اِس سے بھی بہت سی چیزوں کی معافی ہوسکتی ہے۔دُوسری شکل یہاں جو آرہا ہے کہ تیرے گناہ پہنچ جائیں بادلوں تک پھر تو مجھ سے معافی چاہے۔ تو گناہوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔گناہوں کی ایک قسم وہ ہے کہ جو اِنسان اَور خدا کے درمیان غلطیاں نافرمانیاں اِس قسم کی کہ جن کا تعلق اِس بندے اَور خدا کے ساتھ ہے بس۔ جانوروں سے بھی زیادتی نہیں کی جاسکتی : اَور دُوسری غلطیاں اُس قسم کی ہیں کہ جس میں کوئی اَور مخلوق بھی شامل ہورہی ہو۔ مخلوق اِس لیے کہہ رہا ہوں کہ جانوروں تک کا یہ ہے کہ اُن کے ساتھ بھی زیادتی نہیں کرسکتے وہ بھی منع آیا ہے اَور اِتنی مکمل تعلیم کسی دین میں نہیں ہے جتنی اِسلام میں ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں معاف کردُوں گا اگر اِستغفار کیا وَلَااُبَالِیْ ۔ اور لَااُبَالِیْ کا مطلب یہ ہے کہ تیرے ذمّہ جو حقوق ہیں اُن کو اَدا کرنا ایک کام ہے یہ میں اَدا کردُوں گا اگر خداوند ِ کریم کی کسی بندے پر نظر رحمت ہوجائے تو پھر یہ فیصلہ ہوگیا کہ اِس کو بخشنا ہی ہے اَور جب اللہ تعالیٰ کسی کو بخشتے ہیں تو پھر جن لوگوں کے حقوق ہیں اُس کے ذمّہ اُن کے حقوق اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اَدا فرمادیتے ہیں اُس آدمی کو جس کا حق ہے جس کا قرضہ ہے اُس کو قیامت کے دن وہاں اِتنا دے دیا جائے گا کہ وہ خوش ہوجائے اَور اِسے معاف کردے، دینا بہرحال ہوگا اُس کا حق مارا کہیں نہیں جائے گا اِنَّ اللّٰہَ لَایَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ذرّہ کے برابر بھی اللہ تعالیٰ زیادتی نہیں فرماتے تو وہ تو ملے گا اُسے ضرور جس کا حق ہے لیکن جس پر حق ہے اُس کی مدد کیسے ہو؟ اُس کی مدد اِس طرح پر ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اُس دُوسرے آدمی کو راضی کریں گے کہ تو اِتنا لے لے اگر وہ کہے گا نہیں تو اَور دیں گے پھر کہے گا نہیں پھر اَور دیں گے حتّٰی کہ وہ کہے گا ٹھیک ہے اِس طریقے پر ہوگا۔ تو یہ لَااُبَالِیْ کے جملہ سے مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ یہ فرمارہے ہوں کہ جب میں بخشنا چاہوں کسی کو تو بخش ہی دیتا ہوں اَور کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ وہ جو لوگ ہیں جن کے حقوق ہیں اللہ اُن کے حقوق کا بھی ذمّہ لے لیتا ہے کہ وہ میں اَدا کردُوں گا اَور میں دے دُوں گا اُس کو ۔ ١ ١ مگر اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت کس پر ہوتی ہے اِس کا علم دُنیا میں نہیں ہوسکتا موت کے بعد ہی پتہ چلتا ہے اِس لیے خطرہ کی چیز ہے لہٰذامرنے سے پہلے ہی معاملہ صاف کرالینا چاہیے۔ ( محمود میاں غفرلہ')