ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2009 |
اكستان |
|
ہے۔ حضرت اُم ِ رومان نے جواب دیا ذرا اَبو بکر کے آنے کا انتظار کرو۔چنانچہ تھوڑی دیر میں وہ بھی تشریف لے آئے۔ اُن سے بھی حضرت خولہ نے یہی کہا کہ اے ابو بکر کچھ خبر بھی ہے اللہ تعالیٰ نے تم کو کس خیر وبرکت سے نوازنے کا اِرادہ فرمایا ہے؟ بولے وہ کیا؟ جواب دیا مجھے رسول اللہ ۖ اِس مقصد کے لیے بھیجا ہے کہ عائشہ سے نکاح کے بارے میں آپ کا پیغام پہنچادوں۔ یہ سن کر حضرت صدیق اکبر نے کہا کہ وہ تو آنحضرت ۖ کی بھتیجی ہے (کیونکہ میں آپ کا بھائی ہوں )کیا اِس سے آپ کا نکاح ہو سکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب لینے کے لیے حضرت خولہ بارگاہِ رسالت میں واپس پہنچیں اَور حضرت صدیق ِ اکبر کا اشکال سامنے رکھ دیا۔ اِس کے جواب میں آنحضرت ۖ نے فرمایا کہ ابو بکر سے کہہ دو کہ تم اور میں دینی بھائی ہیں، تمہاری لڑکی سے میرا نکاح ہو سکتا ہے۔ (رشتہ کے حقیقی یا باپ شریک یاماں شریک بھائی کی لڑکی سے نکاح دُرست نہیں ہے،دینی بھائی کے لڑکی سے نکاح جائز ہے ) چنانچہ حضرت خولہ واپس حضرت صدیق ِ اکبر کے گھر آئیں اور شرعی فتوی جو بارگاہِ رسالت سے صادر ہوا تھا اُس کا اظہار کردیا جس پر حضرت صدیق ِ اکبر حضرت عائشہ سے آپ کا نکاح کردینے پر راضی ہوگئے اور آنحضرت ۖ کو بلا کر اپنی بیٹی عائشہ کا نکاح کردیا۔ اِس کے بعد حضرت خولہ حضرت سودہ کے پاس گئیں اور اُن کے اِشارہ سے اُن کے والد زمعہ سے گفتگو کر کے آنحضرت ۖ سے حضرت سودہ کا نکاح کردینے پر راضی کرلیا اور نکاح کرادیا ۔ (جس کی تفصیل حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے تذکرہ میں آئے گی) ہجرت : آنحضرت ۖ نے حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کے مشورہ اور کوشش سے حضرت عائشہ اور حضرت سودہ سے نکاح فرمایا لیکن چونکہ حضرت عائشہ کی عمر بہت کم(صرف ٦ سال ) تھی اِس لیے رُخصتی ابھی ملتوی رہی البتہ حضرت سودہ کی رُخصتی بھی ہوگئی اور آپ کے دولت کدہ پر تشریف لے آئیں اور گھر کی دیکھ بھال اِن کے سپرد ہوئی۔اِس کے بعد ہجرت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور حضرات صحابہ مدینہ منورہ پہنچنے لگے بلکہ اکثر پہنچ گئے۔ حضرت صدیق ِاکبر نے بھی بار ہا آنحضرت ۖ سے ہجرت کی اجازت چاہی لیکن آپ فرماتے رہے کہ جلدی نہ کرو، اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو تمہارا رفیق ِ سفر بنادیں۔ یہ جواب سن کر حضرت ابوبکر کو اُمید بندھ گئی کہ آنحضرت ۖ کے ساتھ میرا سفر ہوگا چنانچہ جب اللہ جل شانہ نے آنحضرت کو ہجرت کی