ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2009 |
اكستان |
|
ور ہشام بن عروہ والی سند عالی ہے علوِ سند سے متصف ہے۔ ٢٠۔ اسرائیل عن الا عمش والی روایت کو جو ابن ِسعد میں ہے، آپ کا ابو معاویہ عن الا عمش والی کا متابع اوّل فرمانا اور مالک بن سعیر عن الا عمش کو جو معارف بن قتیبہ میں ہے، مزید روایت ابو معاویہ کا مؤید قرار دینا میرے لیے محل ِ تعجب ہے۔ جب آدمی کسی بات کو ثابت کرنے پرتل جاتا ہے اِسی قسم کے استدلال کا سہارا لیتا ہے۔ ٢١۔ محترم ! معارف ابن قتیبہ اِس علمی استدلال میں کام آنے والی کتاب نہیں ہے۔ اوّل تو میری تصریح کے مطابق میں نے اپنے استدلال کو صحاح تک اَور دارمی، کتاب الام اور مسند ِ امام احمد تک محدود رکھا ہے۔ پھر معارف تو ویسے بھی مختلف فیہ کتاب ہے۔ دُوسرے درجے کی تاریخی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ مؤید اسرائیل عن الا عمش کے متعلق بھی اوّل یہی عرض ہے کہ یہ حوالہ میری تصریح سے باہر کا حوالہ ہے۔ مگر اِس پر تفصیلی گفتگو کرنا چاہتا ہوں کیونکہ تفصیل میں کئی گوشے میرے مفید مطلب سامنے آئیں گے۔ وباللّٰہ التوفیق ۔ آپ نے ابن ِ سعد سے یہ روایت نقل کی ہے مگر اِس روایت کے پہلے راوی کو ترک فرمادیا جو جان ِ سند ہے یعنی محمد بن عمر واقدی ۔ (جاری ہے) فرض نماز کے بعد پڑھا جانے والا وظیفہ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ۖ نے فرمایا: جو شخص ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اﷲ، تینتیس مرتبہ الحمد ﷲ اورتینتیس مرتبہ اﷲ اکبر کہتا ہے جنکی مجموعی تعداد ننانوے ہوتی ہے پھر سو کے عدد کو پورا کرنے کے لیے ایک مرتبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْیئٍ قَدِیْر کہتا ہے تو اُس کے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔( مسلم شریف ج ١ ص ٢١٩ )