ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2009 |
اكستان |
|
دیکھتے دہلی اور میوات سے نکل کر عالم کے چپہ چپہ پر پھیل گئی اور جگہ جگہ دین کے عنوان پر حرکت میں برکت کے مناظر سامنے آنے لگے۔ اس تحریک کی عمومیت نے رنگ و نسل اَور علاقہ و زبان اَور امیر و غریب کا فرق مٹادیا اور اُمت کا ہر طبقہ'' دعوت الی الخیر'' سیکھنے اور سکھانے کے لیے ایک ہی نظام سے مربوط ہوگیا۔ اِس تحریک کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ دین زندگی کے ہر گوشہ میں سما جائے۔ عبادات بھی شریعت کے مطابق ہوں اور معاشرت اور معاملات بھی اِسلامی رنگ میں رنگین ہوجائیں اور غیر اسلامی عقائد و اعمال سے مسلم معاشرہ پاک ہوجائے۔اس جماعت ِتبلیغ کی نماز اَور روزہ پر محنت صرف اِس لیے نہیں ہے کہ دین کو بس عبادات کے دائرہ میں محدود کردیا جائے بلکہ دین پوری زندگی میں آنا چاہیے۔اَور اس کے لیے جہاں اچھائیوں کو پھیلانے کی ضرورت ہوگی وہیں برائیوں پر حکمت عملی سے نکیر کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔اس لیے کہ جس طرح کھیتی اُس وقت تک برگ و بار نہیں لاسکتی جب تک کہ اُس کے جھاڑ جھنکار کی صفائی نہ کی جائے، اِسی طرح اسلامی معاشرہ کا تصور بھی اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ گناہوں اور نافرمانیوں کو جڑ سے نہ اُکھیڑدیا جائے۔ جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ''جماعت'' کا کام تو بس نماز کی دعوت دینا ہے اور برائیاں کتنی ہی آنکھوں کے سامنے گھر میں یا باہر ہوتی رہیں اُن پر نکیر کرنا ہمارا کام نہیں ،یہ بڑی بھول ہے۔ قرآنِ کریم نے دعوت کی تفسیر میں دونوں ذمہ داریو ں کو بتایا ہے : (١) اَمَرْ بِالْمَعْرُوْفِ (اچھی باتوں کی تلقین) (٢) نَہِیْ عَنِ الْمُنْکَرِ (بری باتوں پر تنبیہ)۔ اِنہی دونوں ذمہ داریوں کو اَدا کرکے دعوت کا مفہوم پورا ہوتا ہے۔ یہ انصاف کی بات نہیں ہے کہ ہم اچھائیوں کی دعوت میں سب کچھ کھپادیں اور جب برائیوں پر متنبہ کرنے کا وقت آئے تو دامن بچاکر لے جائیں کہ کہیں کوئی ناراض یا درپے آزار نہ ہوجائے۔ بہر کیف اُمت میں ایسے افراد کا موجود رہنا ضروری ہے جو دُنیا میں خیر کو پھیلاتے رہیں اور منکرات پر قوت کے ساتھ نکیر کرتے رہیں، یہ دین کا نہایت مفید اور وسیع ترین شعبہ ہے۔ دین کے تمام شعبوں کا مرکز : دین کے اِن تمام شعبوں کا مرکز دَورِ نبوت میں آنحضرت ۖ کی مسجد مبارکہ تھی، وہیں تعلیم کے حلقے لگتے تھے، وہیں تربیت اور تزکیہ کا کام ہوتا تھا، وہیں سے مجاہدین کے لشکر منظم کرکے بھیجے جاتے تھے اور