ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2009 |
اكستان |
|
''اے محمد ( ۖ) آپ کو اِن کے مال اور اَولاد اچھے معلوم نہ ہوں اللہ تعالیٰ تو یہ چاہتے ہیں کہ اِن مالوں اور اَولادوں کی وجہ سے اُن کو اِس دُنیا میں عذاب دیں۔'' واقعی بعض لوگوں کے لیے اَولاد وَبالِ جان ہی ہوجاتی ہے۔ بچپن میں تو اُن کے پیشاب پاخانہ میں نمازیں برباد کرتے ہیں۔ جب بڑے ہوجاتے ہیں تو اُن کے لیے طرح طرح کی فکریں ہوجاتی ہیں کہ اِن کے لیے جائداد ہوروپیہ ہو اور گھر ہو خواہ دین رہے یا نہ رہے لیکن جس طرح بن پڑے گا اِن کے لیے دُنیا سمیٹیں گے اور ہر وقت اِسی دُھن میں رہیں گے۔ حلال وحرام میں بھی کچھ تمیز نہ کریں گے پس ایسی اَولاد کا نہ ہونا ہی نعمت ہے جن لوگوں کے اَولاد نہیں اُن پر خدا کی بڑی نعمت ہے اگر اَولاد ہوتی تو اُن کی کیا حالت ہوتی، واللہ اعلم جن کی صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں اُن کی تسلی کے لیے ضروری مضمون : حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ : حضرات! آپ کو خوب یادہوگا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے جس لڑکے کو قتل کردیا تھا اُس کے لیے اور اُس کے والدین کے لیے (اِس میں بڑی )مصلحت بھی تھی۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس لڑکے کے قتل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُس کے والدین کو ایک لڑکی دی جس کی اَولاد میں انبیاء علیہم السلام پیدا ہوئے۔ تو بتلایئے اگر آگے لڑکا ہوتا اورویسا ہی ہوتا جیساوہ لڑکا تھا جسے حضرت خضر علیہ السلام نے مار ڈالاتھا تو آپ کیا کر لیتے ۔ یہ خدا کی بہت بڑی مصلحت ہے کہ اُس نے آپ کو لڑکیاں دیںکیونکہ عموماً لڑکیاں خاندان کو بدنام نہیں کیا کرتیں اور وَالدین کی اِطاعت بھی خوب کرتی ہیںاَور لڑکے تو آج کل ایسے آزاد ہوتے ہیں کہ خدا کی پناہ ! اُن کے ہونے سے تو نہ ہونا ہی بھلاتھا ۔اَب آج کل اگر حضرت خضر علیہ السلام ایسے کو نہیں مارتے تو اللہ میاں تو ذبح کرسکتے ہیں اَور اللہ کا پیدا نہ کرنا (یا پیدا کرکے موت دے دینا ) یہ بھی ایک گو نہ ذبح کرنے کے مثل ہے۔ اور جس کو اللہ تعالیٰ کچھ بھی اَولاد نہ دیں نہ لڑکا نہ لڑکی اُس کے لیے یہی مصلحت ہے کیونکہ بندوں کے مصلحتوں کو اُن سے زیا دہ اللہ جانتے ہیں (دیکھیے آج ایک شخص بے فکری سے دین کے کام میں لگا ہوا ہے کیونکہ اُس کے اَولاد نہیں)۔