ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2009 |
اكستان |
|
صاحب خاموش رہے ،مجھے حیرانگی اِس پر زیادہ ہوئی کہ بڑے اساتذہ بھی اپنے ساتھ پتیلے لے کر آئے تھے۔ جب سب نے اپنے اپنے ''پتیلے '' بھر لیے تو بعد اَزاں سیٹھ صاحب نے مجھے اشارے سے اپنے پاس بلایا۔ میں گیا تو پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا کہ اَٹک سے۔ پھر پوچھا کس واسطے آئے ہو؟ میں نے کہا علم حاصل کرنے کے لیے۔ اِس پر سیٹھ صاحب کہنے لگے کہ بیٹا یہاں پڑھائی وڑھائی نہیں ہوتی یہاں تو بس ''ختموں اور نعتوں'' کا زور شور ہوتا ہے۔اگر آپ نے باقاعدہ علوم ِ شرعیہ پڑھنے ہوں تو ''دارالعلوم دیوبند '' چلے جاؤ،پڑھائی وہاں ہوتی ہے۔ حضرت مولا نا کریم اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پھر سیٹھ صاحب نے مجھے اُس زمانے میں کرایہ کے لیے اَڑھائی روپیہ دیے اور فرمایا یہاں سے امر تسر چلے جاؤ وہاں پہنچ کر یو پی(U.P) کی گاڑی میں بیٹھ جانا وہاں پہنچ کر دارالعلوم دیوبند کا پتہ کرلینا چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اللہ تعالیٰ نے وہاں علم سے نوازا۔'' والد صاحب کے اتنے بڑے عالم بننے میں میرے والد صاحب کی ''پھوپھی صاحبہ'' کا زیادہ دخل تھا جو وقت کی بہت بڑی عالمہ تھیں ،دراصل وہ ایک جید عالم حضرت مولانا موسٰی خان صاحب عمر زئی کی صاحبزادی تھیں اور مولانا نے اِنھیں گھر میں ہی جلالین اور ہدایہ پڑھائی تھیں اور پورا گاؤں دامان (غربی) اُن کا شاگرد تھا۔ اُنہوں نے میرے والد صاحب سے ''دیوبند '' جانے کے بعد فرمایا تھا کہ' 'پگڑی تمام'' کرنے سے پہلے گھر نہیں آنا۔'' پگڑی تمام'' کرنے سے مراد فراغت ہے۔ چنانچہ والد صاحب نے دارالعلوم دیوبند میں شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب، شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی اور جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا ابراہیم صاحب بلیاوی اور حضرت علامہ شمس الحق صاحب افغانی اور دیگر اَجل علماء سے علم حاصل کیا اَور وہیں سے ١٣٥٥ھ/ ١٩٣٧ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ ایک مرتبہ دوران ِتعلیم والد صاحب کے بھائی جو کوالہ لالمپور ملائشیا میں رہتے تھے گاؤں تشریف لائے تو والدصاحب کو بھی اطلاع بھیجی کہ گاؤں آجاؤتاکہ ملاقات ہوجائے۔ چنانچہ والد صاحب ملاقات کی غرض سے گاؤں آئے جب گھر کے دروازے پر دستک دی تو پھوپھی صاحبہ نے پوچھا کون؟ والد صاحب نے