ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2009 |
اكستان |
|
اَولاد کے پس ِپشت مصیبتیں اور پریشانیاں : عورت کے لیے توبچے کا ہونا سخت مصیبت ہے۔ لوگ کہا کرتے ہیں کہ عورت دوبارہ جنم لیتی ہے۔ مگر مرد کے لیے بھی کم مصیبت نہیں ہے کہ زچہ کی خبرگیری، گوند سونٹھ گھی وغیرہ کے لیے خرچ کی ضرورت ہوتی ہے اور بچہ صاحب جو تشریف لائے ہیں وہ مانند پھول اور پان کے ہیں (یعنی نہایت کمزور) ذراسے میں کملاجاتے ہیں۔ سرد ہو الگ گئی تو اَینٹھ گئے اور گرم ہوا لگ گئی (یعنی لُولگ گئی) تو بھڑک اُٹھے۔ کبھی رونا شروع ہوا تو روئے ہی جاتے ہیں اور یہ پتا نہیں چلتا کہ کیوں رو تے ہیں ،بچہ حیوان بے زبان ہوتا ہے اپنا دُکھ بیان نہیں کر سکتا۔ علاج بھی قرائن اور قیاس سے (یعنی اَندازے سے) کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ خیال ہوتا ہے کہ پیٹ میں درد ہے اِس واسطے روتاہے لہٰذا گٹھی دی جاتی ہے اور کبھی خیال ہوتا ہے کہ کان میں درد ہے اس کے واسطے تمباکو کی پیک کان میں ڈلوائی جاتی ہے ،یہ تکلیفیں تو وہ ہیںجو معمولی سمجھی جاتی ہیں اِن کی تدبیریںعورتیں خود ہی کرلیتی ہیں۔ اور کبھی ایسی بیماریاں بچوں کو ہوتی ہیں کہ جو گھر والوں کو سمجھ میں نہیں آتیں اور بڑے بڑے قابل اور تجربہ کار حکیموں اور ڈاکٹروں کو تلاش کرنا پڑتا ہے اور ذرا سے بالشت بھر کے آدمی کے لیے ہزاروں روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے اُس وقت تارے نظر آتے ہیں (دماغ چکرا جاتے ہیں ) اور بے ساختہ آدمی کہہ اُٹھتا ہے کہ پہلی اَولاد ہوئی تو ہمیں ماردیا بھلے مانس اِس کا کیا قصور ہے تو ہی نے تو اِسے بلایا ہے۔ غرض کہیں ناک دُکھ رہی ہے کہیں آنکھ دُکھ رہی ہے ذرا ساجی اچھا ہوتا ہے تو اپنی جان میں بھی جان آجاتی ہے اور جب اِس کی طبیعت خراب ہوتی ہے تواپنی زندگی بھی تلخ ہوجاتی ہے۔'' بین الرجاء والخوف'' یعنی اُمید اور خوف کے درمیان کی زندگی کا لطف آتاہے (اور درجات کی ترقی ہوتی ہے)۔ خیر خدا خدا کرکے لڑکا بڑا ہوا تو اَب اُس کی شادی ہوئی پھر اُس کی اولاد ہوئی پھر اُس کے اولاد ہوئی اَور سارا دَندھا اَز سرنو شروع ہوا۔ جن تکلیفوں سے خدا خدا کر کے کچھ نجات پائی تھی اَب پھر اُن کا آغاز ہوا۔ اگر اُس کی اولاد نہ ہوئی تو اُس کا غم کہ اَولاد کیوں نہیں ہوتی اور اگر ہوئی بھی تو وہ بھی سب سازو سامان لائی یعنی وہی گُوہ مُوت۔ یہ عیش وآرام ہے دُنیا کے، یہ اشغال ایسے ہیں کہ جن سے کوئی بھی خالی نہیں حتی کہ لوگوں کی طبیعتیں اِن سے ایسے مانوس ہوگئی ہیں کہ اگر یہ نہ ہوں تو طبیعت گھبراتی ہے کہ کوئی شغل نہیں۔(جاری ہے)